SIZE
5 / 8

تو اس نے گھر واپسی کے لیے قدم اٹھائے۔ گھر آیا تو دیکھ کر چونک گیا کہ گھر پر تالا لگا تھا۔ اس نے گہرا سانس لیتے ہوۓ ڈپلیکیٹ چابی سے دروازہ کھولا اور گھر میں داخل ہوتے ہی بیڈ روم میں چلا آیا جہاں خالی ڈریسنگ ٹیبل اور خالی وارڈ روب کے کھلے ہوئے پٹ اس کے شک کی تصدیق کر رہے تھے۔ اس لمحے موبائل پر میسج کی ٹون بجی تو اس نے موبائل نکال کر ان باکس کھولا ۔

فرح نے اسے ٹیکسٹ کیا تھا۔

" تو اگر آپ یہ سجھتے ہیں کہ میں ساری زندگی آپ کی غلام بن کر رہوں گی تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔"

فائز نے فورا" فرح کو کال ملائی تاکہ فرح کو اس کی جذبانیت اور احمقانہ فیصلے کا احساس دلا سکے' لیکن اس نے کال ریسیو نہیں کی۔ بھس میں چنگاری لگ چکی تھی۔

فرح میکے پہنچی تو فرح کو سوٹ کیس کے ہمراہ دیکھ کر بھابی کی گرم جوشی ویسی نہ رہی جس کا مظاہرہ وہ فون پر کر چکی تھیں۔ مگر فرح نے اپنی سادہ لوح طبعیت کی بنا پر یہی قیاس کیا کہ اس کی وجہ بھابی کی طبعیت ہی ہوگی جس کا وہ اکثر دکھڑا روتی رہتی ہیں۔ اسے میکے میں رہتے ہوئے تیسرا دن تھا۔ بچوں کی وین انہیں پک اور ڈراپ کر دیتی تھی۔ فرح بچوں کو اسکول بھیج کر ٹی وی کے آگے بیٹھی تو نو بج گئے۔ ابھی اس نے کمرٹکانے کا سوچا ہی تھا کہ بھابی چلی آئیں ۔

"فرح ! میرا بی پی اوپر نیچے ہو رہا ہے۔ تم ذرا میرا ناشتہ بنا دو ۔ پھر دوپہر کے لیے دال چاول اور آلو کی ترکاری بنا لو اور شام کے لیے گوشت بھی چڑھا لو۔ اور ہاں شام میں فریحہ اور امی ایئں گی مجھے دیکھنے' تو پھر میٹھا بنا لینا۔ اف کھڑا نہیں ہوا جا رہا۔ میں چلتی ہوں۔ سنبھال لینا ذرا۔ کوئی مہمان تو ہو نہیں۔"

بھابی نے کنپٹیاں دباتے ہوئے ماتھے پر بل ڈال کر کہا توه بس اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی۔ بھابی کمرے میں چلی گئیں۔ وہ سب کاموں سے فارغ ہو کر نہا کر آئی تو بچے آ گئے تھے۔ بچوں کو کپڑے بدلوا کر کھانا کھلا کراس نے بھابی کی ہدایت پر کھانا ان کو ان کے کمرے میں پہنچایا اور پھر بچوں کو سلانے کمرے