جائزہ لیا۔ " چلو اب تم لے آۓ ہو۔ خیر ہے۔"
رابعہ نے کھانا لگا دیا تھا۔ سالن کا بھرا ہوا ڈونگا دیکھ کر وہ بولیں۔ " ہمارے لیے سالن الگ کر دیا کہ نہیں۔"
" کر دیا ہے خالہ! آپ بے فکر ہو کر کھاائیں۔
رابعہ نے جواب دیا۔کھانے کے بعد رابعہ جھٹ پٹ چاۓ بنا لائی۔
" یہ اب جہاں سے آ گیا دودھ؟" خالہ فورا بولیں۔
" یہ ملک پیک لے کر آئے ہیں۔"
" اچھا!" کو خوب لمبا کھینچ کر انہوں نے پیالی پکڑ لی۔
" چاۓ ذرا ڈھنگ کی بنائی ہے اب کے تم نے' ورنہ دل کچا کچا سا ہو رہا تھا گوبھی کی ہیک سے۔ تلی نہیں ٹھیک سے تم نے۔" پیٹ بھر کر سالن کھانے کے بعد ان کو یاد آیا۔
" تو آپ نا کھاتیں خالہ! میں آپ کو دال دے دیتی' رات میں پکائی تھی۔ رابعہ نے بھی اُدھار چکایا۔ خالہ چپکی ہو رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد دانی دکان کے لیے نکلنے لگا تو بولیں۔
”ارے بیٹا رُکو' مجھے لے چلو' نفیسہ کے گھر تک زری دیر کو مل کر جاؤں گی۔"
"جلدی کیجیے پھر۔" دانی بولا ۔ جھٹ سے برقعہ اوڑھ کر خالہ اس کی سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر نفیسہ کے گھر پہنچ گئیں اور اترتے ہوئے بولیں۔
" دانی! كل منے کو دکان پر بھیجوں گی سودے کی لسٹ دے کر۔ سب سودا احتیاط سے دینا اور پیسوں کی فکر نہ کرنا۔ " اور جھپاک سے دروازہ کھول کر نفیسه کے گھر کے اندر داخل ہو گئیں۔ ان کے سلام کی آوازسن کر نفیسہ جلدی سے باہر آئی۔ اس کے گھراس کی بچی کا رشتہ دیکھنے کچھ لوگ آۓ ہوۓ تھے۔ وہ خالہ کو دیکھ کر پریشان سی ہو گئی۔ بیٹھک میں عورتوں کو بیٹا دیکھ کر وہ ادھر ہی لپکیں۔