SIZE
2 / 4

غلام چاچا کا اپنا چلتا کاروبار تھا جو جانے کدھر چلتا تھا کہ ایک روپیہ نہ نکلتا ان کی جیب سے، مجال ہے جو کبھی دیکھنے کو ملا ہو۔

" اور غلام چاچی۔۔۔۔۔ وہ تو استانی تھیں' پھر جانے تنخواہ کدھر جاتی تھی۔

" وہ مستعدی سے سانجھے باورچی خانے میں آئی تھی۔ ایک سلنڈرمشتری کے قبضے میں تھا، جبکہ دوسرا غلام چاچی سنبھالے بیٹھی تھیں۔

" ایک حصہ مجھے خالی کر دیں، مجھے بابا جانی لیے سوپ بنانا ہے۔" وہ منمنائی تھی۔ جسے قطعا خاطر میں نہ لایا گیا تھا۔

" چھری تلے دم تو لو۔ ہم بھی کام ہی کر رہے ہیں۔ مشتری بولی تھی۔

" مجھے بابا کے لیے سوپ بنانا ہے۔"اس نے چبا کرایک ایک لفظ پر زور دیا تھا۔

" مجھے میکرونی بنانی ہے اور دوسرے پر چنے ابل رہے ہیں، تھوڑا صبر کرو۔"

یعنی کسی کا کوئی یرادہ نہ تھا، اس کے بابا کے لیے سوپ بنانے دینے کا۔

حالانکہ زیادہ بھوکا رہنے سے ان کی طبعیت خراب ہو جاتی تھی۔ ڈھیر سارے آنسو اس کی آنکھوں میں امڈ آۓ تھے۔ چپ چاپ باہر آ کر وہ پھیلاوا سمیٹنے میں مگن ہو گئی تھی۔

صحن کو جھاڑو کی نہیں پانی کی ضرورت تھی، اس نے جلدی جلدی پائپ لگا کر دھونا شروع کر دیا تھا۔ اسے یاد آیا تھا۔ ابھی پرسوں کی ہی بات تھی۔ جب ابا کے ماہانہ چیک اپ کے لیے پیسے کم پڑ رہے تھے، تو وہ غلام چاچی سے مانگنے چلی گئی تھی۔ مگر انہوں نے تو منہ پر ہی صفا چٹ انکار کر دیا تھا، بلکہ الٹا اسے مفت مشورہ سے بھی نواز نے لگی تھیں۔

" پڑھی لکھی ہو، کہیں نوکری کیوں نہیں کرتیں۔ ہر وقت ہاتھ پھیلائے رکھنا اچھا لگتا ہے کیا۔" بے انتہا نخوت تھی ان کے لہجے میں۔

وہ چاہتی تھی کہ کرارا سا جواب دے، بابا کی ا چھی خاصی پیشن، کچن، دودھ، بجلی، گیس اور اخبارات و رسائل کی مد میں نکل جاتی تھی، جوان ان لوگوں کی وجہ سے ہوتا تھا۔ مگر بابا کی تربیت آڑے آنے کی وجہ سے وہ خاموش ہی واپس آ گئی تھی ۔ وہ اس نفسا نفسی کے دور میں بھی اپنے ابا کی نصیحت عمل پیرا تھے کہ ہمیشہ جوڑ نا، صلہ رحم، کبھی توڑنا مت۔

کچن میں بے ہنگم سا شور برپا ہوا تھا۔ اس نے تقریبا صحن دھو ہی لیا تھا۔ اس لیئے پائپ سمیٹ کر کچن میں آ گئی۔ غلام چاچی کی میکرونی اور چنے والی ٹرے نجانے کیسے زمین بوس ہوچکی تھی۔ چاچی تو ابھی صدمے کی حالت میں بت بنی کھڑی تھیں۔

" واللہ! میں نے ایسا کبھی نہیں چاہا تھا۔“ حالانکہ چاچی نے ہمیشہ اس کے معاملے میں سفاکی کا مظاہرہ کیا تھا، مگر اس نے کبھی ایسا نہ چاہا تھا۔ اس کی وجہ سے بلاوجہ کسی کا نقصان ہو جائے۔ غلام چاپی غصے سے اوپر چلی گئی تھیں ۔ یعنی یہ پھیلاوا بھی اسے ہی سمیٹا تھا۔ اس نے فرش صاف کیا، سوپ بنایا اور بابا کے کمرے میں آ گئی۔

" یہ لیں جی گرما گرم سوپ۔‘‘ وہ دنیا میں اس کی اکلوتی خوشی تھے۔ جینے کی وجہ، سکون کا سامان ، آنکھوں کی ٹھنڈک، ان سے بات کرتے ہوئے لہجہ خود بخود ہی خوشگوار ہو جاتا تھا۔

" بابا ہمارے حالات کب ٹھیک ہوں گے؟"

" رطا بہ بیٹا! ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔" وہ ٹھیک سے بول نہیں پاتے تھے۔ اس لیے مختصرا اسے تسلی دی تھی۔ وہ باہر نکل آئی تھی ان کے کمرے سے............... بابا جتنا حوصلہ اس میں نہیں تھا۔