SIZE
1 / 7

" یہ کیا مصیبت ہے بھئی۔۔۔۔ نئی دلہن کو کم از کم ایک مہینے تک تو کام کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔"خوش بخت نے صبح صبح میاں جی کے لیے بل دار پراٹھے بیلتے ہوۓ اپنے مہندی لگے ہاتھوں پر ایک نظر ڈالی تو چڑ کر سوچا۔

" خوشی۔۔۔۔ اومیری۔۔۔۔۔ زندگی کی پہلی خوشی۔۔۔۔ یار ۔۔۔۔ ناشتہ لے بھی آؤ۔" امان کے اتنے پیارسے پکارنے پر اس کے ہاتھ تیزی سے چلنے لگے۔

خوش بخت نے باریک کتری پیاز اور ہری مرچوں کا سنہری آملیٹ پلیٹ میں نکالا' بھاپ اڑاتی چاۓ کے دو کپ ٹرے میں رکھے اور بے زار چہرے پر مسکراہٹ کا نقاب اوڑھ کر باہر نکل گئی۔ نیا گھر' نیا ماحول۔ وہ اپنی ماں کی ہدایات کے زیر اثر یہاں پھونک پھونک کر قدم رکھتی اپنے چہرے پر ہمہ وقت نرم سا تاثر طاری کیے زیادہ بولنے کی جگہ سوچتی رہتی۔

خوش بخت کی شادی کو صرف پندرہ دن ہی گزرے تھے اور اس کی ساس نے گھر کی ساری ذمہ داری اس کے نازک کاندھوں پر لا دی۔ شادی کے ایک ہفتے بعد ہی جاری ہونے والے نادر شاہی حکم پر وہ اندر ہی اندرتلملائی' کلبلائی پر چپ کی مہر نہ ٹوٹی۔

وہ سو کر اٹھی' چاۓ کی طلب میں کچن کی طرف گئی تو دیکھا که خورشید اشتیاق نے بڑے سے پتیلے میں کھیر چڑھائی ہوئی تھی' اس کے استفسار پرپتا چلا کہ اس کی کھیر میں ہاتھ ڈلوانے کی رسم ادا کی جارہی ہے۔ انہوں نے اسے کھیر دیکھنے کا کہا اور خود اس کے گھر والوں کو فون کر کے رات کے کھانے کی دعوت دینے چل دیں۔

" اتنی جلدی۔۔۔۔ سب کام مجھے سنبھالنے ہوں گے۔۔۔۔" خوشی ہکا بکا کچن میں کھڑی رہ گئی۔ اس کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کام کہاں سے شروع کرے۔

" دیکھیں۔۔۔۔ سلمیٰ بہن! میں نہیں چاہتی کہ خوشی کو اس گھر میں اجنبیت کا احساس ہو' ہم چارتولوگ ہیں یہاں۔۔۔۔۔ کام کا کوئی خاص بوجھ نہیں' صاف صفائی کے لیے شریفاں آ جاتی ہے۔ بس اوپر کے کام اور کھانا پکانا ہوتا ہے۔ اچھا ہے کہ یہ اس گھر کے طور طریقے جلد ہی سیکھ لے۔ اب سب کچھ ہماری دلہن کو ہی تو سنبھالنا ہے۔ اچھا ہے اپنی من چاہی گھر داری شروع کر دے۔"خوشی کی امی کے دبے دبے اعتراض پر خورشیدہ نے واضح الفاظ میں اپنا موقف سب کے سامنے رکھا۔

" انٹی کہتی تو آپ ٹھیک ہیں۔۔۔۔ اگر ساری ساسیں آپ کی طرح سوچیں تو روز روز کی دانتا کل کل سے جان چھوٹ جائے' اور گھروں میں سکون ہوجاۓ۔" خوش بخت کی بھابی عمیمہ نے اپنی ساس کو ترچھی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بظاہر مسکرا کرکہا۔

کچھ کردیں تو بیٹی کو سادگی سے بیاہا جا سکے۔ ان کا تو وه حال " سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے" بس وہ نکل پڑیں۔ انہون نے محلے بھر کی خواتین کے پاس جا جا کراس کی مدد کے لیے مہم کا آغاز کیا ہوا ہے۔"

اشتیاق انور نے مسکرا کر بہوکوبتاتے ہوۓ بیوی کی تعریف کی تو وہ حیران رہ گئی۔ اس کا سسرال جس علاقے میں تھا' وہ ایک ہائی سوسائٹی کہلاتی تھی۔ یہاں کے رہائشی نہ بلاوجہ کسی کی زندگی مداخلت کرتے نہ ہی کسی سے ایسی توقع رکھتے۔ البتہ خوشی اور غمی میں گھنٹہ بھر کو شرکت ضرور کرتے۔ ایسی جگہ گھر گھر جا کر کام کرنے والی مائی کے لیے امداد اکٹھی کرنا بڑی بات تھی۔