SIZE
1 / 9

یہ کیا بکواس ہے ؟" انتہائی درشتی سے ادا ہوئے جملے پر ایمل ساری کی ساری کانپ گئی۔

" کک کیا ؟"

" یہ!"۔۔۔۔ چند کاغذوں کا لہرتا پلندہ اس کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی تھا۔

”بابا کو مجھ سے بہت شکایات ہیں میں بہت نالائق ہوں۔ میرا ہر رزلٹ شرمندہ کر دیتا ہے اور ان کی بہو۔"

اس نے بہوخاصا کھینچ کر کہا تھا۔

" دن رات پڑھنے والی لڑکی شاید دنیا کی پہلی اور آخری ذہین ترین لڑکی' راتوں کو جاگ جاگ کر خاندان کا نام پوری دنیا میں روشن کر دے گی وہ محترمہ یہ فرما رہی ہیں۔" وہ ایک ایک صفحے کو بے دردی سے پلٹتے ہوئے اسے کینه توز نگاہوں سے نواز رہا تھا۔

"پلیز شجاع! ایسے نہیں کریں ' یہ مجھے دے دیں' پلیز۔۔۔۔! وہ بہت ہمت پیدا کر کے آگے بڑھی۔

" جی نہیں' یہ تو اب بابا ہی پڑھیں گے' اپنی لاڈلی کا ٹیلنٹ۔"

" شجاع پلیز۔۔۔۔۔" اس کا ہاتھ کاغذوں کی طرف بڑھا تھا مگر شجاع نے آنکھیں نکال کر اسے تنبیہہ کی۔

" ہاتھ نہ لگانا ورنہ۔"

وہ بہت دیر سے اسٹور کے کونے میں کھڑی چھوٹی کے ساتھ سرگوشیاں کر رہی تھی۔ ماحول میں حبس' بجلی بند' پسینے سے شرابور دونوں بہنیں۔ اس کے اندر کی لگن ہر موسم پر حاوی تھی۔ وہ بہت محتاط انداز سے اسے سمجھا رہی تھی۔

" دیکھو ہادیہ! بہت احتیاط سے جانا اور اسے دوپٹے میں چھپا کر رکھنا۔"

" ہاں' ہاں باجی! میں اتنی بیوقوف تھوڑی ہوں' جتنی شکل سے لگتی ہوں۔"چھوٹی نے مدبرانہ انداز میں پلکیں ٹپٹپائیں " اگر کسی نے پوچھ بھی لیا تو بالکل نہیں بتاؤں گی' اس لفانے میں کیا ہے۔۔۔۔۔؟ "

” ٹھیک۔۔۔۔ اور یاد ہے ناں' میں نے کیا کہا تھا ؟ " جویریہ نے اس کا دوپٹہ پھیلا کر درست کرتے ہوئے کوئی چھٹی مرتبہ یاد دہانی کروائی تھی۔

" جیسے ہی رحیم چاچا آئیں پہلے سلام کرنا' پھراسے ارسال کرنے کی جگہ اور طریقہ پوچھنا اور غلطی سے بھی۔۔۔۔"

" اور غلطی سے بھی سرخ ڈبے میں نہیں ڈالنا' پھنس جائے گا اور رحیم چاچا کو لالچ دینا ہے کہ مہربانی فرما ہے کر یہ آپ ارسال کردیں ہم روپیہ' اٹھنی آپ کو فالتو دے دیں گے۔۔۔۔۔" ہادیہ خاصی ہوشیار تھی اپنی انگلی پر گنتے ہوئے سبق کی طرح سنانے لگی تھی۔

" باجی صحیح سنایا ہے ناں میں نے' کل رات سے تو آپ یاد کروا رہی ہیں۔" جویریہ اس کے استہزائیہ انداز پر مسکرا دی۔

" ہاں! جاؤ اب اماں سے دہی کے پیسے لو۔۔۔۔۔۔" تیرہ چودہ سال کی تھی۔ چھوٹی ہونے کے بنا پر گھر کے چھوٹے موٹے کام با آسانی کر دی تھی۔ اب بھی اماں کے پاس گئی قصہ سنایا۔

" باجی اماں کے پیٹ میں درد ہے' دہی اسپغول کھانا ہے، دہی کے لیے پیسے دے دو۔" اماں نے پان دان سے روپیہ نکالا ' ساتھ ہدایت بھی کی۔

" تازہ اور میٹھا کہہ کر لانا۔۔۔۔ اگرچونی بچ جائے تو نکڑ والے سے چند پان کے پتے پکڑ لینا' کم بخت گرمیوں جلدی باسی ہو جاتا ہے۔ وہ سروتے سے چھالیہ کترتے نیا پان تیار کرنے میں مصروف تھیں۔ سرنگ نما گلی تیار کر کے کھلی سڑک آ گئی۔ کن اکھیوں سے دیکھتا کالا سا موچی' سامنے دواؤں کی چھوٹی سی سی دکان سجائے ڈسپنسر اور قدرے آگے کریانے کی دکان پر سوجی تولتا عباس چاچا- آج سب ہی کی نظریں اسے مشکوک لگ رہی تھیں۔ جیسے سب جانتے ہوں کہ اس کے دوپٹے کے اندر کیا ہے۔ اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔

"ہائے اللہ! یہ سب مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں کیا انہیں شک پڑ گیا ہے۔ باجی کوئی گناہ تھوڑی کر رہی ہیں' آخر باقی سب بھی تو ایسے ہی چوری چوری کرواتی ہوں گی ، پھر مجھے کیوں ڈر لگ رہا ہے۔ کہیں کوئی بھائی جان کو نہ بتا دے' بھائی کی دکان کا رستہ بھی یہی ہے اگر پتا چل بھی گیا تو میں صاف مکر جاؤں گی کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔"