SIZE
5 / 7

" سائرہ۔۔۔۔۔ تمہارے ابو۔۔۔۔۔ “ وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھیں۔

" بس امی۔۔۔۔۔۔۔۔۔" تنبیہی نگاہوں سے انکار کیا' بہت چوٹ کھا چکی تھی وہ ۔

" امی اپنی ذات کی نیلای بہت ہوچکی اگر ٹھکانے لگانے کے متعلق سوچ لیا ہے تو ٹھکانے لگنے بھی دیں۔‘‘

لہجے کی سختی' جملے کے عزم نے انہیں اپنی جگہ ٹھٹکنے پر مجبور کر دیا تھا' اس کی آ نکھوں میں چٹانوں جیسی مضبوطی دیکھ کر مزید کچھ بولنے سے وہ باز رہیں۔ جس پتھرپر جتنی رفتار سے دھار گرتی رہے اتنی تیزی سے اس میں سوراخ ہوتا ہے۔ وہ بھی اپنے اندر اہانت کی دھار لیے کئی سوراخ کروا چکی تھی۔ ایک ایم اے پاس اچھے نین نقش والی لڑکی کے ساتھ توہین آمیز سلوک کی انتہا ہو چکی تھی۔

اپنے اندر کی سختی برداشت کر کے وہ پھٹ چکی تھی' دل کو سنهالے مہمانوں کی طرف بڑھی۔ ابومہمانوں کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے تھے بیٹیوں کی بڑائیاں بہت حد تک جاری تھیں۔ تھوڑی دیر گزرنے کے بعد انہوں نے سائرہ کو بھی اندر آنے کا اشارہ دیا اور جب وہ آئی تو ابو کو اپنی بصارت پر یقین نہیں آیا' تمام لوازمات سے کسی حد تک آراستہ' خوب صورت سی مسکراہٹ سجاۓ انہیں سائره نہیں ملی' وہ بہت کچھ کہتے کہتے رک گئے تھے۔ وہ بڑے سے موٹے دوپٹے میں لپٹی نظریں اوپر نہ اٹھاتی اور شرافت کی پیکر کو تلاش کررہے تھے۔ وہ بہت مجبور تھے ۔ مہمانوں کے سامنے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے تھے' وہ چائے سرو کر رہی تھی ' کاشف صاحب ساتھ ہی آئے تھے' لمبے لمبے بال گھٹنوں کو چھورہے تھے۔ ابو نے دو باره طائرانہ نظر ڈالی اور وہ کمرے سے نکل گئے ۔ امی کو اشارے سے بلایا' اسے خبر تھی کہ وہاں کیا کچھ ہو رہا ہوگا۔ سدا کی چپ چاپ ماں اور امبر کے ساتھ ' آخر میں آ گئیں کاشف کی بھابی اور امی اس سے باتیں کررہی تھیں ' ایک آدھ بار کاشف کی پرشوق نگاہوں کا سامنا بھی ہوا ' وہ نظریں جھکا گئی۔

آخر میں حق میزبانی ادا کرنے کے لیے ابوکو آنا ہی پڑا ' اپنے طور انہیں خوش دلی کے ساتھ الودع کہا۔ ان کے دل میں کتنے طوفان امڈ رہے ہوں گے ' یہ وہ بخوبی جانتی تھی۔ کاشف کی امی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور گاڑی میں بیٹھ گئیں ۔ گاڑی کے روانہ ہوتے ہی وہ اپنے کمرے میں بند ہو گئی ۔ ابو کے تیز تیز بولنے کی آوازیں درودیوار کو ہلا رہی تھیں۔ خبر تھی کہ امی دبک کران کے نایاب جملے برداشت کررہی ہوں گی۔

" بے غیرت و بے حیا‘‘ تک کے الفاظ اس نے اپنے لیے سن لیے تھے۔ کتنی بار دل میں بپھرتے طوفان کو سنبھالتے ہوئے وہ اس کے کمرے تک بھی آئے لیکن دروازہ بند دیکھ کر واپس چلے گئے۔ لبوں کو دانتوں سے کاٹ کاٹ کر اس نے زخمی کرلیا تھا۔

" اب یہاں جتنے بھی رشتے آئیں گے میں باہر نکل جاؤں گا تم لوگ جتنی مرضی ہو من مانیاں کرتے رہنا نہ میری ہاں سے تم لوگوں کو کوئی غرض ہوگی نہ میری نا سے۔ کیا سوچتے ہوں گے وہ شریف لوگ کہ متوسط گھرانے کی بیٹیاں اس قدر بے باک ہیں۔ تم لوگوں کو کوئی پوچھنے نہیں آئے گا اگر یہی لچھن رہے تو۔۔۔۔۔" زہر مین بجھے جملے سماعت میں پیوست ہو رہے تھے' اس نے جلتی آنکھوں کو بھینچ لیا۔

پورے پندرہ دن انہوں نے کسی سے بات نہ کی' کسی کو اپنی ضروریات کے لیے نہ پکارا۔ زبردستی کرنے کی کوشش ان لوگوں نے کی تو دل کے زخم ہی ہرے ہوۓ۔

" تم لوگ مر چکے ہو میرے لیے۔"

یہی عالم رہتا خاموشی کا اور ان کے تڑپتے رہنے کا' جب ایک صبح فون کی بیل ارتعاش نہ بپا کرتی۔