" لگتا ہے کسی نے سفلی علم کرایا ہوا ہے بچیوں کے رشتے پر۔" محلے والیاں توجیہہ پیش کرتیں۔
" نہیں آپا ہماری کسی سے کیا دشمنی ہے جو لوگ سفلی علم کرائیں گے بس نصیب میں ہی کچھ ایسا لکھا ہے تو انسان کیا کریں گے۔"
دو سال اور خاموشی سے گزر گئے' عدنان اب بی ایس سی کا سٹوڈنٹ تھا۔ اب خالہ کی بیٹی کی شادی تھی تو انہوں نے بطور خامی بچیوں کو اس تقریب میں آنے کو لکھا تھا کہ ان کی سسرال میں سے کئی لوگ آرہے تھے جنہیں اپنے بیٹوں کے لیے رشتوں کی تلاش تھی کیونکہ آج کل رشتے ایسے ہی پسند کر لیے جاتے ہیں۔ پر ان لوگوں کو امی نے خبر ہی نہ ہونے دی کہ کہیں ٹینشن میں مبتلا ہوجائیں اور شادی کی تقریب انجوائے نہ کرسکیں جسے پسند کرنا ہوگا ایسے ہی کرلے گا ۔ آخراورلڑکیوں کو بھی تو پسند کیا جاتا ہے ایسے ہی ہنستے کھیلتے اور انہیں تو جانے کب سے انتظار تھا غزل کی شادی کا ۔ انہوں
نے دو دو سوٹ اچھے سلوا لیے' امبر نے لہنگا بنوایا اور اس کے لیے چوڑی دار پاجامے کے ساتھ آرکی پٹی لگا کرتا بنوایا تھا۔ ساتھ ساڑھے تین گز کا دوپٹہ۔ پر عین موقع پر ابو کو بھنک مل گئی کہ کچھ خاص لوگ بھی آئیں گے' سارے سلے ہوئے نئے جوڑے رکھوا دیئے اور سیدھے سادے سوٹ نکلوا کر پکڑا دیئے۔
" کوئی یہ چمک دمک والے کپڑے نہیں پہنے گا ۔ آج نہ کل پہننے بھی ہیں تم لوگوں کو تو پھر پہن لینا ابھی بہت سے مواقع آنے ہیں اور لیپا پوتی فضول قسم کی ہوئی تو بہت برا ہوگا ۔‘‘اپنے احکامات صادر کر کے نکل گئے اور ان کا دل تو ایسا خراب ہوا کہ جانے کو دل نہیں چاہا' دونوں نے انکار کردیا۔
" ہم نہیں جائیں گے آپ اور ابو چلے جائیں۔" ویسے بھی امبر کے ایگزامز کی تیاری کا بہانہ بن گیا۔ سائره کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا وہ کیا کہیں گے پہلے خبرنہیں ہوئی تھی اور اب تو کسی صورت نہیں مانیں گے۔
" امی ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو کچل کر وہ کتنے نفلوں کا ثواب کما رہے ہیں' مجھے اس بات کی خبر نہیں ہوتی۔ ‘‘ خود اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
" اس طرح نہیں کہتے وہ جو کچھ کرتے ہیں تم لوگوں کی بھلائی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ ہی کہتے ہیں۔"
" امی انتہا ہوگئی ہے ان کے اس قسم کے خیالات نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟"بار بار اپنا رد کیا جانا کب پسند آیا تھا۔ اب اس کی دلی تمنا تھی کہ اس قفس سے نکل کر اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو تکمیل کا جامہ پہنائے' جائز تمناؤں پر بھی پہرے بٹھانے والا کوئی نہ ہو۔
امی کمرے سے نکل گئی تھیں وہ تکیے میں منہ دے کر ایسا روئی کہ ساری تقریب میں بخار رہا' ابو کے کہنے کے مطابق سادہ سوٹ میں دوپٹہ لپیٹے بیٹھی رہی۔ لڑکیوں کے جگمگاتے کپڑے' دمکتے چہرے اس کے اندر آگ بھرگئی۔
شادی کا سلسل ختم ہوا' زندگی روٹین پر آ گئی' تین چار مہینے گزر گئے' کو ئی پوچھنے بھی نہ آیا۔ خالہ یہی کہتیں کہ میں کیا کرسکتی ہوں خود اپنے منہ سے لڑکے کی ماؤں کو اپنی بیٹیوں کے متعلق کہتا کون اچھا لگتا ہے۔ امی دکھے دل سمیت اٹھ گئیں۔
ایک روز پھر وہی سلسلہ ابھرا ' اب کے دوست کی ماں اپنے بڑے بیٹے کے سلسلے میں آرہی تھیں جو کہ امریکہ سے ایف آر سی ایس کر کے لوٹے تھے۔ امی نے حسب مقدور ان لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کر ڈالی' دو دن کے بعد ہی انہوں نے آ جانا تھا وہ آنکھوں میں سناٹے لیے سب تیاریاں دیکھتی رہیں۔ کئی بار ایسے ہنگامے جاگے اور سرد پڑ گئے' کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ جانے تقدیر کیا امتحان لینا چاہ رہی تھی ' ہر بار ماڈل کی طرح پیش ہو جانا اور عزت نفس کا خون کرنا کس درجہ دل کو تکلیف پہنچاتا کسی کو خبر نہ ہوتی۔
وہ دن بھی آ گیا جب اسے پھر پیش ہونا تھا' امبر نے ریفرشمنٹس تیار کرلی تھیں' ساتھ ساتھ باتیں جاری تھیں۔
" آج ابو نے کون کون کی ہدایات جاری کی ہیں آپ کے لئے' ہزار طریقے سے پہنے اوڑھنے کا مسئلہ لے کر دل جلائیں گے اور ہوگا کچھ بھی نہیں۔" وہ مایوسیوں کی اسیر ہو چکی تھی۔
سی گرین اور بلیو کامبنیشن کا جارجٹ کا سوٹ نکالا اور استری کر کے پہن لیا۔ لمبے لمبے بالوں کو اوپر کلپ لگا کر کھلا چھوڑ دیا۔ ہلکے پھلکے میک اپ میں دمک اٹھی۔ آئی لائنز سے آنکھیں سج گئی تھیں۔ امبر اور امی اندرآ گئیں' آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں' امی نے دل تھام لیا۔
" سائرہ مہمان آنے والے ہیں۔" اپنے تئیں انہوں نے احساس دلانا چاہا۔
" مجھے پتا سے امی' انہی کے لیے تیار ہوئی ہوں' کانوں میں سفید نگوں والے چھوٹے چھوٹے بندے
پہنے' دوپٹہ دونوں اطراف سے کاندھوں پر ڈالا۔