SIZE
2 / 7

" چلو فیصلہ آپی پر چھوڑ دیتے ہیں.............. آپی لیمن بوریا والا سوٹ کتنا اچھا ہے ناں جو خالہ نے بھیجا تھا۔‘‘امبر نے صلح جوئی میں بھی مشورہ دینا ضروری سمجھا۔

" آنے دو بھئی پھر فیصلہ بھی ہوجائے گا۔"

" امی میں ذرا اپنے کمرے میں جا رہی ہوں کل میرا ٹیسٹ ہے۔" ادھرسے بہانہ بنا کر اٹھنا ہی مناسب سمجھا کیونکہ ان دونوں کے چپ ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے تھے سو خود ہی اٹھ آئی۔

اس نے سدا اللہ سے یہی دعا مانگی تھی کہ یا اللہ اس کے حق میں بہتر ہو کہ وہ بے نیاز نوازنے والا ہے۔

جمعہ کو ان لوگوں کو ابو نے بلا لیا تھا ' رات کو ہی امبر نے رائل بلیو سوٹ پریس کر کے رکھ دیا تھا۔ ساتھ ہدایت بھی جاری کی کہ کالج نہیں جانا آج ورنہ تھکن کے برے اثرات چہرے پر حاوی ہو جائیں گے؟ سو وہ کالج نہ گئی' مہمانوں کے آنے سے پہلے باتھ بھی لیا' شیمپوکی مہک بالوں سے چہارسو بکھررہی تھی' ابھی چٹیا بنا رہی تھیکہ امی اندر آ گئیں۔

" کپڑے بدل لیے سائرہ بیٹی۔‘‘ انہوں نے سرتا پا اس کا جائزہ لیا' وہ سادہ سے نقوش میں سج سنور کر بہت ہی پر کشش لگی' اس وقت بھی معصومیت و نزاکت کے زیور سے وہ آراستہ نظر آرہی تھی۔ وہ کہتے ہوئے جھجک رہی تھی۔

" سائره وہ ..... تمہارے ابو کہہ رہے ہیں کہ تقریب والے کپڑے نہیں پہننا کہیں لڑکے والوں پر برا اثر نہیں پڑے' اتنا اچھا رشتہ وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ہیں ۔ اس ذرا سی اونچ نیچ پر کہیں وہ لوگ بدک نہ جا ئیں۔"

" تقریب والے کپڑے۔۔۔۔ لیکن امی یہ تو عام سا کاٹن کا سوٹ ہے' گھریلو کپڑوں میں کوئی اس قابل نہیں کہ مہمانوں کے سامنے پہن سکوں۔"

" انہیں اس نازک موقع پرکوئی کیا کہہ سکتا ہے کہیں موڈ ہی نہ خراب کر بیٹھیں بیٹا۔۔۔۔۔ وہ کہہ رہے ہیں وہ سرمئی سوٹ پہن لو جو تم نے پرسوں پہنا تھا۔"

" چار سالہ پرانا سوٹ جس کے رنگ بھی اب فیڈ ہو رہے ہیں؟" وہ تو حیران ہی رہ گئی۔

" امی کیسا لگے گا مہمانوں کے سامنے۔“ وہ روہانسی ہوئی' رشتہ داری دوسری بات ہے اس کی اپنی شخصیت کا بھی کچھ وقار تھا جسے وہ کھونا نہیں چاہتی تھی۔

" وہ کہہ رہے ہیں شریف فیملی ہے پتہ انہیں کہیں برا نہ محسوس کر لیں کہ لڑکی فیشن پرست ہے۔" وہ بحث میں پڑنے والی لڑکی نہیں تھی لیکن یہ سوٹ بھی اتارنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا' سائرہ اور عدنان بھی اپنی اپنی جگہ ابو کے حکم کے آگے لب خاموش کی تفسیر بن بیٹھے تھے' بس دل ہی دل میں احتجاج بپا تھا۔

" چلو یہی پہن لو ورنہ ان کا موڈ تباہ ہوجائے گا' مہمانوں کو بھی صحیح طرح اٹینڈ نہیں کر پائیں گے؟ آخر چادر میں سب کچھ چھپ ہی جانا تھا۔"

" چادر۔۔۔۔۔ “ وہ تو صرف چونکی تھی ' امبر اور عدنان با قاعدہ چیخے تھے' امی اپنی جگہ مجرم بن گئیں۔

" ہاں یہ بھی تمہارے ابو کا کہنا ہے کہ بالکل شریفانہ روپ میں آنا ہے اچھے طریقے سے اوڑھ کر۔"

" اوڑھ تو میں دوپٹے کو بھی سکتی ہوں مگر گھر میں چادر کون اوڑھتا ہے؟ امی اگر ہم اس گیٹ اپ میں نہیں آئیں گے تو کیا ہمارے انداز و اطوار شریفانہ نہیں نظرآئیں گے' اچھی بھلی لڑکی کی مت مار دیں گے ۔"وہ ان کی دلیلوں کے آگے کچھ بھی نہیں بول سکتی تھیں' جوان بچے تھے ناجائز بولتے تو بات کچھ اور تھی؟ اور عمر بھر کے ساتھی کی بات بھی نہ ٹالی جا سکتی تھی اور بچوں کا کہنا بھی بجا تھا ' ابو کے تمام احکامات سنا کر باہر نکل آئیں۔

مہمان آئے' وضع داری و بردباری بے شک جھلک رہی تھی' ان کے رکھاؤ میں بھی عامیانہ پن نہ تھا لیکن حد سے بڑھی قدامت پسندی کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ وسیم صاحب ساتھ ہی آئے تھے شاید یہ ان کے گھرانے کا دستور بھی تھا' بات چیت میں بھی شرافت کے ساتھ جدت پسندی ۔ سائرہ اور عدنان دونوں ان کے پاس بیٹھے تھے۔ وسیم کو دیکھ کر امی کو کچھ سبکی ہوئی تھی کہ خوش مزاج' خوش شکل ڈیسنٹ سا لڑکا انہیں پسند آیا تھا۔ اتنی بڑی دولت وآسائش کے مالکوں کو غرور چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔