SIZE
4 / 4

خوشی کی پھلجھڑیاں چاروں طرف پھوٹتی نظر آ رہی تھیں۔ لیکن چشم انتظار کو سکون پذیری حاصل نہ ہوسکی۔ جیب خرچ کے پیسے تک کی پریشانی ، بیوی اور بچی کی کوئی خواہش وقت پر پوری نہ ہو سکی ۔جب میری بیٹی دوسرے ٹیچرز سے میرا مقابلہ کرتی تو میں صرف یہ کہہ دیتا کہ بیٹا وہ گرانٹیڈ اسکول کے ٹیچرزہیں۔

گھر کے سبھی افراد کثرت سے اصرار کرتے تھے ’’یہ نوکری چھوڑ دو ‘‘ ۔۔۔ ۔لیکن پھر وہی بات ذہن میں گردش کرتی ہوئی چلی آتی تھی، کہیں میرے ساتھ بھی وہی نہ ہو جو میرے دوست کے ساتھ ہوا تھا۔ پھر وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا۔ کئی بار تنہائی میں میں نے بھی سوچا تھا کہ نوکری چھوڑ دو ں پھر خیال آتا نوکری چھوڑ دی تو گاؤں میں سوائے مزدوری کے کوئی دوسرا کام نہیں ملتا اور پاس اتنا پیسہ بھی نہیں ہے کہ اپنا کوئی کاروبار شروع کر سکوں ،محنت مزدوری اب مجھ سے ہوگی نہیں ۔ انتی طاقت اب رہی نہیں ۔۔۔۔اورلوگ کیا کہیں گے ۔

نان گرانٹ اسکول پر بارہ سال مفت کام کرتے کرتے تھک چکا تھا ۔پل پل لڑائی اپنے آپ سے مجھے ہر وقت کشمکش میں مبتلا رکھتی تھی۔ شب تنہائی میں ہیبت ناک خیالات میرے حوصلوں کو پست کر دیتے تھے۔ آنکھوں سے نیند غائب ہوتی گئی ۔رات بھر بے چینی اور ہر وقت اپنے اندر ایک خالی پن کا احساس ، کبھی کبھی جی میں آتا کہ تمام غموں سے آزاد ہو جاؤں اور سوچ و فکر کو دور دریا میں پھینک آؤں۔ دھیرے دھیرے بالوں میں سفیدی اترتی گئی،نظر کی عینک لگ گئی،آنکھوں پر لگی عینک تو لوگوں نے دیکھی لیکن اس کے پیچھے چشم پر آب کسی کو نظر نہ آئی۔ اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ گھونٹ کر سال در سال گزرتے گئے۔۔۔۔وقت پر لگا کر اڑتا رہا اور میں نان گرانٹ پر ہی ریٹائر ہوگیا۔