پریشان ہو چکا میرا وجود پریشانی کے لق دق صحرامیں چلنے کے لیے مجبور تھا۔ لیکن ہر منزل پر سراب ہی سراب دکھائی دیتا تھا۔ میں اذیت سے گھرا گھر کی جانب قدم بڑھائے جا رہا تھا۔ زمین کا سینہ چیر کر اس میں سما جانے کو دل چاہ رہا تھا۔ اب تک استقلال کا دامن ہاتھ سے چھوٹا نہیں تھا لیکن اب پائے ثبات میں لغزش آرہی تھی، انتظار کے راستوں پر چلتے چلتے پاؤں چھلنی ہوگئے تھے ،مصیبتوں کے گرداب میں گرفتار ہو کر دنیا کی ہر شے سے دل اوب چکا تھا،پریشانیوں کے انبار سے زنبیل بھر گئی تھی، ذہن منتظر ہوتے ہوتے منتشر، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت منجمد اور طبیعت مکدر ہو گئی تھی ۔ کل تک میری کلاس میں جن کی زبان تک نہ کھلتی تھی آج ان کی زبان خنجر کی طرح چل رہی تھی۔میں عالم ازخود رفتگی میں اسکول سے گھر کی طرف جا رہا تھا، اسی دوران پیچھے سے آواز آئی ’’ دیکھو وہ جارہا ہے بن پگاری فل ادھیکاری ‘‘ اور قہقہے کانوں میں پڑتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے پشت پر خنجر سے وار کیا ہو، پلٹ کر دیکھا تو ہوش و حواس معطل ہو گئے، کر ب و ایذا سے دل تڑپ اٹھا جیسے جسم کا سارا خون خشک ہو گیا ہو ۔ خاموش مجسمے کی طرح مسلسل ایک منٹ انھیں ہی دیکھتا رہا ۔وہ ایک منٹ ایسا لگا جیسے صدیاں بیت گئی ہو ں۔ میں وہاں سے جلد نکل جانا چاہتا تھا لیکن قدموں میں آگے بڑھنے کی طاقت ہی نہ رہی۔ طبیعت گھبرا گئی اور سانسیں بے ترتیب ہو نے لگیں۔اس کی مجھے امید نہ تھی کیوں کہ وہ میرے ہی ۔اسٹوڈنٹ تھے۔
اپنی بے ترتیب سانسوں کو سنبھالتے ہوئے گھر پہنچا تو بیوی نے روز کی طرح دماغ چاٹنا شروع کر دیا’’ آپ یہ نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے، کوئی دوسرا کام تلاش کر لیجیے ،آخر کب تک ہم تنگ دستی کی زندگی جیتے رہیں گے‘‘ میں پہلے ہی پریشان تھا، اپنے دکھ میں مبتلا کہ جو طالب علم تھے میرے طاعن بن گئے تھے ،اس بات کا مجھے بے حد افسوس تھا اور ساتھ بیوی بھی جا ن کھانے بیٹھ گئی ۔میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا’’ کیسے چھوڑ دوں، میرے دوست نے ایک اسکول پر آٹھ سال تک مفت میں کام کیا اور لوگوں کے کہنے پر کہ اس اسکول کا کوئی مستقبل نہیں ، نوکری چھوڑ دی۔ نوکری چھوڑنے کے ایک سال بعد ہی اس اسکول کو گرانٹ مل گئی اور وہ بیچارا پشیمانی میں پڑ گیا ۔ حیرت و افسوس کا سِحر اس پر حاوی ہو گیا اور اس کی تمام حسر تیں دل ہی دل میں دبی رہ گئیں۔ جب لوگ اس پر ہنسنے لگے تو اس نے مجھ سے کہا تھا ’’وقت کا رونا بے وقت کی ہنسی سے اچھا ہوتا ہے۔۔۔ ۔وقت از دست رفتہ و تیر ازکمان جستہ باز نیا ید۔‘‘