SIZE
3 / 6

" حور کی عمر ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے جو بھی اس کے لیے رشتہ آتا ہے وہ ہم دونوں میں سے کسی ایک کا سوالی بن جاتا ہے اور امی اپنی عادت کے مطابق انکار کردیتی ہیں۔ گگتا ہے ہم بھی بوڑھی ہوجائیں گی حور کی طرت تب ان کو عقل آۓ گی۔"

" اللہ نہ کرے عکس ایسی بد فالیں منہ سے نہیں نکالتے ہیں۔ اللہ سے اچھے کی امید رکھو۔ تم اتنی پریشان مت ہو۔ تم اپنے لیے اتنی پریشان ہو۔ ایک دفعہ خود کو اپنی بہن حور کی جگہ رکھ کر سوچواس کو کتنی تکلیف ہوتی ہو گی جب وہ ریجیکٹ ہوتی ہو گی۔ وہ کتنی اذیت محسوس کرتی ہو گی' جب اس کے لیے آۓ لوگ تمہیں پسند کرتے ہوں گے' وہ کتنے دکھ میں ہوگی۔ وہ خود کو بوجھ سمجھتی ہوگی کہ اس کی وجہ سے تم دونوں کی شادی نہیں ہوتی۔ عکس تمہاری ابھی اتنی زیادہ عمر نہیں ہے۔ ابھی تم بی ایس سی میں ہی تو ہو' تمہارا تو پھر ہوجائے گا۔ بجائے اس کے کہ تم اپنی بہن کا دل جلاؤ تمہیں اس کا درد سمجھنا چاہیے۔ اس کا حوصلہ بڑھانا چا ہیے' اس کا ساتھ دینا چاہیے۔" ثمرین اسے سمجھا رہی تھی۔ جبکہ آنسہ اورآفرین اسے خاموشی سے سن رہی تھیں۔

" چھوڑو یار! ان کا کیا' عمر تو ان کی بڑھتی ہی جا رہی ہے اور۔۔۔۔۔" اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتی اگلے پیریڈ کی بیل ہوگئی۔ اپنی کتابیں اور نوٹس' بیگ سمیٹ کر تینوں کلاس لینے چل پڑیں۔

وہ کالج سے لوٹی تو لاؤنج سے آتی ٹی وی کی آوازیں سن کر وہیں چلی گئی جہاں آمنہ ٹی وی کے سامنے بیٹھی کوئی شو دیکھ رہی تھی۔ وہ ٹیبل پر کتابیں اور بیگ رکھ کر اس کے پاس چلی آئی۔

" امی کہاں ہیں؟ اپنے کمرے میں؟" ٹی وی دیکھتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

" خیر ہے نا ! امی اس وقت کمرے میں کیوں ہیں؟ "عکس کو فکر ہوئی۔

" امی کا بی پی بہت لو تھا۔ شدید چکر آرہے تھے۔ تب ہی دوائی کھا کر اپنے کمرے میں آرام کررہی ہیں۔"

وہ ٹی وی کی آواز کم کرتی اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ تب ہی لاؤنج میں آتی ہوئی حور پر نظر پڑی تو اونچی آواز میں کہنے لگی۔

" اور ویسے بھی ہمارے گھرمیں اتنی بڑی ٹینشن کے ہوتے ہوئے سب خیر کیسے ہو سکتی ہے۔" اندر آتی حور اس کی بات سن کر وہیں کھڑی رہ گئی۔

" ہونہہ۔۔۔۔ یہ تو واقعی سچ کہا تم نے۔ حور کی شادی تو مسئلہ کشمیر بن گئی ہے' جب تک اس کی شادی نہیں ہو گی ' ہمارے مسائل بھی حل نہیں ہوسکیں

گے۔" عکس نے تائید کی۔ اس سے زیادہ سننے کی تاب حور میں نہ تھی۔ وہ الٹے قدموں لاؤنج سے واپس نکل کر بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں گئی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر نظریں شیشے میں اپنے عکس پر جما دیں۔

" کچھ خاص نہیں ہے مجھ میں' اگر خاص ہوتا تو آج تک ریجیکٹ نہ کی جا رہی ہوتی اور یہ میری بہنیں ۔۔۔۔۔ یہ کیا جانیں ریجیکٹ ہونے کی اذیت کیا ہے۔ میرے لیے آیا رشتہ جب میرے بجائے ان کے لیے ڈال دیا جاتا ہے تو میں کیا محسوس کرتی ہوں اور اب تو کوئی اذیت کوئی سوچ نہیں رہی سوائے اس کے میں اپنی بہنوں کی خوشیوں کی راہ میں رکاوٹ ہوں۔ ہا اللہ ! میں ایسا کیا کروں جو ان کی خوشیاں بچا لوں' یہ جو مجھ سے متنفر ہو گئی ہیں ' مجھے بوجھ سمجھتی ہیں' میں ان سے نظریں ملا کر بات نہیں کر سکتی۔ قصوروار نہ ہوتے ہوۓ بھی مجھے قصور وار سمجھا جا رہا ہے۔ میری بہنیں مجھ سے ناراض ہیں ۔ ایک طرح سے ان کا ناراض ہونا

بھی درست ہے۔ میری وجہ سے آمنہ کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ کتنی خوش تھی آمنہ اس رشتے سے اس فیصلے میں خود اپنی نظروں میں گر گئی ہوں۔ اللہ میں کیا کروں؟ دردناک سوچوں نے اسے اپنے گھراؤ میں لیا ہوا تھا۔

" میں اب تھک گئی ہوں میرے مولا! سب کے لیے ایک ناپسندیدہ بوجھ بن گئی ہوں۔ میں کیا کروں۔“ وہ سر پکڑ کر وہیں زمین پر بیٹھ گئی - نا پسندیده ہستی ہونے کا خیال ہی کتنا سوہان روح ہوتا ہے' کوئی اس سے پوچھتا۔