مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ مظہر دیہاتی تھا اور سرشام کھانا کھانے کا عادی جب ہی عائزہ کو اس روز معمول سے کہییں پہلے کچن میں جانا پڑا اس کے جاتے ہی میں اس کے کمرے میں آ گیا۔ دریچے سے پردے ہٹا کر میں نے کھڑکی کا پیٹ وا کیا اور جنگلے کی دو سلاخیں کچھ اس حد تک ہٹا دیں کہ اس سے میرا دوست با آسانی وہاں سے کمرے میں داخل ہو سکے۔ یہ خاصا مشقت طلب کام تھا مگر صد شکر تھا کہ اس طرف کسی کا گزر نہیں ہوتا تھا۔ یہ بھی شکر تھا کہ عائزہ کے بالکل ساتھ میرا کمرا تھا اگر اس کے کمرے میں شور ہوتا اور میرے کمرے کی کھڑکی کھلی ہوتی تو وہاں سے یہ ساری آوازیں با آسانی اندر پہنچ سکتی تھیں۔ میں نے دریچے کو بند کیا لیکن چٹخنی نہیں لگائی۔ پردے برابر کیے اور دبے پاؤں کمرے سے باہر نکل آیا۔ باقی کھیل رات کا تھا۔ کھانے کے بعد جب ماما اور عائزہ اپنے کمروں میں چلی گئیں تو میرے لیے مظہر کو مووی کے لئے قائل کرنا ہرگز مشکل ثابت نہ ہوا۔ اسے اپنے کمرے میں لا کرمیں نے ذرا گرما گرم سی مووی نکالی اور خود واش روم جانے کے بہانے سے اٹھ گیا۔ باتھ روم میں قدم رکھنے سے قبل میں نے ایک نظر کھلی کھڑکی کی طرف دیکھا اور مطمئن ہو گیا۔ واش روم میں بند ہو کر میں نے شاور کھول دیا اور فون نکال کر اسد کو کال کر کے ایکشن لینے کا کہا اور خود گنگناتے ہوئے شاور لینے لگا اس کام سے فراغت کے بعد میں نے کموڈ پر پیر رکھ کر روشن دان سے کمرے میں جھانکا۔ مظہر مطمئن اور مگن انداز میں مووی میں گم تھا۔
" یه اسد خبیث کہاں رہ گیا؟"
ہر طرف سے اطمینان نے مجھے ابھی تشویش میں مبتلا کیا ہی تھا کہ ایک دم کھلی کھڑکی سے نسوانی چیخوں کی آواز کمرے میں آئی۔ مظہر نے بہت چونک کر سر گھمایا اور آواز کا تعین کرنے کے بعد سرعت سے اٹھا تھا اور دریچے تک گیا اور گویا صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اگلے لمحے وہ ہوائیاں اڑتے چہرے کے ساتھ تیر کی مانند واش روم کے دروازے تک آیا اور دونوں ہاتھوں سے ایک افرا تفری کے عالم میں دروازہ پیٹ ڈالا۔
" ایزد بھائی' ایزد بھائی۔ جلدی باہر آئیں۔ مجھے لگتا ہے عائزہ باجی کی طبیعت ٹھیک نہیں یا پھر کوئی اور گڑ بڑ ہے۔ وہ زور زور سے چیخ رہی ہیں' مدد کو پکار رہی ہیں۔ " وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں تیز تیز بولا تھا مگر میرے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا۔ میں نے دروازہ نہیں کھولا' ایک دم وہ پلٹا اور بھاگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ میں خو بھی یہی چاہتا تھا۔ اب تک سب کچھ میری سوچ اور منصوبے کے مطابق تھا تو آگے بھی میرے پھیلاۓ جال سے نہیں نکل سکتے تھے۔ میں خباثت سے مسکرایا اور کموڈ سے اتر کر دروازہ کھول کر باہر آگیا۔ ٹی وی ہنوز چل رہا تھا مگر دریچے سے بے ہنگم شور کی آوازیں اسے سنائی دے رہی تھیں۔ میں کچھ حیرانی اور کچھ پریشانی کا تاثر لیے کمرے سے نکلا۔ گھر کے ملازم ماما سمیت عائزہ کے کمرے کی جانب دوڑے جارہے تھے میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ ملازم باہر رک گئے لیکن میں ماما کے ساتھ عائزہ کے کمرے میں جا گھسا۔
عائزہ کی حالت غیر تھی اور بدحواس سا مظہر ہاتھ میں اس کی چادر پکڑے کھڑا تھا۔ میں تلملا کر آگے بڑھا اور آؤ دیکھا نہ تاو مظہر کو لاتوں اور ٹھوکروں کی زد پر رکھ لیا۔ ساتھ ساتھ میری زبان سے مغلظات بھی جاری
تھے۔ میں ہر ممکن طریقے سے مظہر کو مجرم ثابت کرنا چاہتا تھا۔ مظہر تو بھونچکا ہوا ہی تھا۔ عائزہ بھی بد حواس ہو گئی۔
" زلیل! گھٹیا! کمینے! مجھے کیا پتہ تھا تو اتنا خبیث ہے ورنہ …"
میرے ہاتھ اور سرعت سے چلنے لگے ساتھ زبان بھی۔ مظہر تو گنگ ہونے لگا تھا۔ یہی میں بھی چاہتا تھا۔ کہ اسے صفائی کا موقع ہی نہ ملے۔ مگر وہ بھی ایک ڈھیٹ چیزتھا۔ مار کھا کر بھی چپ نہیں رہا۔
" ایزد بھائی! ایزد بھائی! میری بات سنیں۔ یہ میں نہیں تھا۔ میں تو شور سن کر آیا تھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا۔ میرے آنے پر بھاگا ہے میں تو۔۔۔۔۔"
" بکواس مت کر۔ جھوٹے ' کمینے' تو آیا ہی خراب نیت سے تھا۔ تیرے دماغ میں فتور تھا۔ میں نے ایک زور کا گھونسا اس کے منہ پر دے مارا۔ اس کا ہونٹ پھٹ گیا اور خون جاری ہوگیا۔ وہ پہلی بار خوف زدہ نظر آیا اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے پہلے ہونٹ سے ٹھوڑی تک بہہ جانے والے خون کو چھو کر دیکھا پھر گھگھیا کر بولا تھا۔