SIZE
4 / 8

ہے میں اکثر بیمار رہتی ہوں بلکہ تم وعدہ کرو اگر مجھے کچھ ہو گیا توتم ہمیشہ اس کا خیال رکھو گے۔"

" ایسی باتیں مت کریں ماما! مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔"

" موت تو برحق ہے بیٹا' سب کو آنی ہے۔ تم بس مجھ سے وعدہ کرو۔"

ماما کی ضد اور اصرار پر میں جزبز ہونے لگا۔ اب بات کھولنے کے سوا چارہ نہیں تھا۔

" اس کی شادی کردیں ماما اس کا شوہر اس کا خود خیال رکھے گا۔"

" میں تو چاہتی ہوں عائزہ کی شادی تم سے کروں۔ مجھے بہت عزیز ہے وہ اور میں اسے ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتی ہوں۔"

وہ اس قدر ملتجی ہو کر بولیں کہ میں جو دماغ کو بھک سے اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا محض جزبز ہو کر رہ گیا۔ عجیب تھیں ماما بھی۔ کبھی مرنے کی بات کرتی تھیں کبھی اسے عمر بھر آنکھوں کے سامنے دیکھنے کی ۔ بھلا ایک مرے ہوئے انسان کو زندہ انسانوں کے دکھ سکھ سے کیا غرض؟

آپ مجھے ملامتی نظروں سے دیکھ رہے ہیں؟ میں تب ایسا ہی تھا۔ مجھے شاید تب کسی سے محبت نہ تھی سوائے اپنی ذات کے۔ میں بے حس بھی تھا شاید اور یہی بے حسی مجھ سے وہ گھناونا فعل سرزد کرا گئی۔

ماما عائزہ کی شادی میرے ساتھ کرنا چاہتی تھیں جو مجھے ہرگز گوارا نہ تھا۔ میں بینش کے علاوہ کسی اور کے متعلق اگر سوچتا بھی تووہ ہرگز ہرگز عائزہ نہ ہوتی۔ مجھے اس سے اتنی نفرت تھی کہ حد نہیں۔ حیرت ہے میری نفرت کی آنچ ماما تک کیسے نہیں پہنچی۔ شاید ماما کی غرض پوشیدہ تھی۔ انہیں اپنی بھتیجی کے آگے میری خوشی نظر ہی نہیں آتی تھی۔ سلیقہ شعار' کم گو' خدمت گزاربھتیجی جسے

بہو بنا کروه عمربھر کا سکھ پانے کی متمنی تھیں۔ نئی آنے والی جانے کیسی ہو۔' یہی خوف انہیں اس فیصلے پراکسا رہا تھا۔ یعنی ایثار کا ایثار۔۔۔۔ نیکی کی نیکی اور فائدے کا فائدہ۔ وہ کیا مثل مشہور ہے کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے۔ بالکل یہی بات تھی اور میں ماما کی اس سازش کو کامیابی سے ہمکنار ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا تب ہی غور وخوض کرنا شروع کر دیا کوئی ایسا طریقہ جس سےسانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کہ میں جتنا بھی بے حس اور مفاد پرست سہی بہرحال کھل کر ماما کی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا کہ ماما بی پی کے ساتھ ہارٹ پیشنٹ تھیں اور ڈاکٹر نے انہیں کسی کسی بھی غم اور صدمے سے بچانے کی خاص تاکید کر رکھی تھی۔ جبکہ میں عجیب مشکل میں پڑ گیا تھا۔ ماما کی طبیعت ان دنوں خراب رہنے لگی اور وہ پتا نہیں کیوں میری شادی کرانے کے درپے ہو گئی تھیں۔ مجھے کچھ اور نہ سوجھا تو میں نے عازی سے بات کرنے کی ٹھانی۔ میں بندوق کے لیے اس کا کاندھا استعمال کرنا چاہتا تھا مگر اس سے پہلی قسمت نے مجھے ایک اور سنہرا موقع فراہم کر دیا۔

مظہر پاپا کا دور پار کا رشتہ دار تھا۔ گاؤں میں پاپا کی وسیع زمین تھی جس میں پایا کی وفات کے بعد سے مظہر کے ابا یعنی میرے رشتے کے تایا ہی سنبھال رہے تھے زمینوں سے ہونے والی آمدنی کا حساب کتاب اور کچھ اس قسم کی سوغاتیں مثلا پنجیری' دیسی گھی وغیرہ باقاعدگی سے تایا جی خود پہنچایا کرتے تھے کہ ماما اپنی بیماری کی وجہ سے طویل سفر کرنے سے قاصر تھیں جبکہ مجھے ان کاموں میں سرے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی لیکن اس مرتبہ چونکہ تایا جی کی طبیعت ٹھیک نہ تھی جب ہی انہوں نے خود آنے کے بجائے مظہر کو بھیج دیا۔ سیدھا سادا احمق سا دیہاتی مظہر شکل سے ہی بے وقوف لگتا تھا۔ اس کی شکل پہ برسنے والی اس حماقت نے ہی مجھے وہ شیطانی منصوبہ گھڑنے میں مدد دی تھی اور جب ماما اسے رات رک جانے پر اصرار کررہی تھیں۔ میں نے بھی سرسری سے انداز میں ان کی حمایت کردی۔ وہ بے چارہ تذبذب کا شکار آخر رک گیا کہ ان کے ہاں بزرگوں کی بات کو بہرحال بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کی آمادگی دیکھ کر میرا دل بلیوں اچھلنے لگا مگر کسی پر بھی ظاہر کیے بغیرمیں نے سب سے پہلے فون پر اپنے خاص دوست سے ساز باز کی اور اسے اس کا کام سمجھا کر آمادہ کیا۔ اسے کیا اعتراض ہو سکتا تھا بلکہ اس کی تو سنتے ہی باچھیں کھل گئیں ۔ اس کی بے پایاں خوشی کو محسوس کیے بنا میں نے فون بند کردیا تب مجھے اندازه تک نہ تھا کہ میں انسانیت کی سطح سے کس حد تک گر رہا ہوں۔ دوسرا کام مجھے اس وقت کرنا تھا جب عائزہ کچن میں کھانا پکانے میں مصروف ہوتی۔