میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اس سے نفرت زیادہ تھی کے چڑ؟ مجھے یہ بھی نہیں پتا میں اس سے بے زار کب ہوا پہلی بارکیونکہ میں نے جب پہلی بار اسے دیکھا تو اپنی سرخ و سفید رنگت' سنہرے بالوں اور نیلی کانچ کی آنکھوں کی وجہ سے وہ مجھے بالکل اس گڑیا کی طرح لگی تھی جو باما کے بیڈ روم کے ایک شیلف میں سجی ہر دم مسکرایا کرتی تھی۔ وہ بھی بالکل ویسی ہی تھی اٹریکٹو اور چارمنگ! مگر میرے لیے وہ اس گڑیا کی طرح نہ تو پسندیدہ ثابت ہوئی نہ بے ضرر نہ ہی اس گڑیا کی طرح گھر کے کسی ایک کونے تک محدود رہ سکی۔
میں سوچوں تو شاید اس سے چڑ کا آغاز بھی وہیں سے ہوا تھا جب ماما کی توجہ بٹنے لگی۔ وہ توجہ جو اس سے پہلے صرف میرے لیے تھی وہ اس میں حصے دار بننے لگی تھی۔ ناشتے کے دوران کھانے کی ٹیبل پر اسٹڈی کرتے ہوئے ماما اچانک مجھ سے غافل ہو کر مکمل طور پر اس کی سمت متوجہ ہوجاتیں۔
" عائزہ بیٹا! آپ نے پلاؤ لیا اور یہ کیک تو تمہیں پسند ہے اپنی پلیٹ میں کیوں نہیں نکالا اور آپ کو پتا ہے یہ کباب تواسپیشل میں نے اپنی ہنی کے لیے فرائی کیے ہیں۔"
" عازی! آپ صبح صبح یہ چائے نہیں فریش جوس لیا کرو صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے وغیرہ غیرہ۔"
میں پہلے صرف حساس تھا۔ ماما کی بٹی ہوئی توجہ کی وجہ سے منقسم مزاج ہونے لگا۔ وہ مجھے زہر سے بھی بڑھ کر بری لگنے گی۔ اسی کی وجہ سے ماما مجھے بھولتی جا رہی تھیں' ان کے بیٹے کی پسند ناپسند کیا ہے۔ ماما میرے بجائے اس کی پسند کے کھانے پکانے لگی تھیں۔ کیا پھر بھی مجھے بھی آگ نہ لگتی؟ مجھے لڑنا نہیں آتا تھا۔ میں کبھی چیخ کر نہیں بولا تھا تب ہی یہ آگ میرے اندر جمع ہوتی رہی اور بالآخر الاؤ کی شکل اختیار کر گئی۔ ایالاؤ جو جلا کر خاک کردیتا ہے۔ میں نے بھی اسی الاؤ میں عازی کو جلا کر خاک بنا دیا۔
پھروقت بہت تیزی سے بیت گیا۔ وہ جو ماما کی بھتیجی تھی جسے ماما نے اپنے بھائی اور بھاوج کی وفات کے بعد اپنے دامن شفقت میں پناہ دی تھی۔ بڑی ہو کر بہت نیک پروین قسم کی لڑکی کا روپ دھار گئی۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ماما نے اس کی بہت اعلا پائے کی تربیت کی تھی وہ خوبصورت بھی بہت تھی کہ سب لوگ اسے نہ صرف پسند کرتے بلکہ سراہتے بھی بہت تھے۔ ماما کی سب سہیلیوں میں وہ بہت فرماں بردار مشہور ہو چکی تھی۔ اسے یہ شہرت دینے والی بھی ماما تھیں۔ اتنی چھوٹی سی عمرمیں ہی اس کے کئی پروپوزل آچکے تھے مگر ماما جانے کیا سوچے بیٹھی تھیں جوانکار کیے جاتیں اور میں جو اس بلا کے ٹل جانے کے خیال سے ہر بارخوش ہوجاتا بس جھنجلا سا جاتا۔
" آپ کو اس عازی کی بچی کی شادی بھی کرنی ہے یا نہیں؟" جب آفاق ترمذی سے پروپوزل کو بھی ماما نے ٹھکرایا تو میں مزید چپ نہیں رہ سکا۔
" کرنی کیوں نہیں' مگر ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے۔ پڑھ رہی ہے وہ۔"
" تورشتہ تو طے کردیں۔"
میں دراصل اندر سے خوف زدہ ہو چکا تھا اور اس خطرے کو ٹالنے کی خواہش رکھتا تھا کیونکہ ماما کے ارادے مجھے مشکوک لگنے لگے تھے وہ شاید اسے مجھ سے منسوب کرنے کا ارادہ کیے ہوۓ ہیں جبکہ مجھے یہ ہرگز گوارا نہیں تھا' وہ بھی بینش سے مل لینے کے بعد۔ میرا اس پر دل کیسے آیا۔
بینش جو بہت خوبصورت تھی اور بے حد امیر کبیر بھی' میرا دل اس پر کیسے ایا۔ شاید وہ خوبصورت اتنی زیادہ تھی یا شاید اس کی ادائیں اتنی قاتل تھیں کہ میں گھائل ہونے سے خود کو نہیں بچا سکا اب تو میرا زیادہ وقت اسی کے ساتھ بیتتا تھا۔
" عازی کے لیے رشتوں کی کمی نہیں ہے تم پریشان مت ہو۔"