میں باس کے کیبن سے نکلا تو میرا چہرا غم و غصے کی زیادتی سے سرخ ہو رہا تھا۔
اف! اتنی توہین' اتنی ذلت میرے کانوں سے ابھی تک بھاپ نکل رہی تھی۔
" موٹا' ٹھگنا' گنجا! خود کو سمجھتا کیا ہے؟ ارے ہم اس کے زر خرید ہیں جو دو ٹکے کی نوکری پر جب چاہے ہمیں بے عزت کر ڈالے " منحوس!"
میں واپس اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھتے بھی کلستا ' سلگتا رہا تھا۔ توہین کے احساس سے دماغ کی رگیں کھنچ رہی تھیں۔ جی تو چاہ رہا تھا نوکری پر لات مار کر چلا جاؤں مگر بینش کے غضب ناک چہرے نے تصور میں اگر مجھے اپنے ارادے پر قائم نہیں رہنے دیا۔ وہ تو ڈائن بن کر خون پی جاتی میرا۔
" ریلیکس یار! کیا ہوگیا ہے۔ اتنا ٹینس کیوں ہورہے ہو؟"
میرے کولیگ نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر گویا تسلی دی تو میں نے سرد آہ بھری۔ اب اسے کیا بتاتا کہ میرے ستارے گردش میں آئے ہوۓ ہیں۔ آج کل ہر طرف سے ذلت جیسے بارش بن کر برس پڑی تھی میں تو بوکھلا کر رہ گیا تھا۔ ہفتہ بھر پہلے میری گاڑی سے ایک معمولی ایکسیڈنٹ ہوگیا کسی انسان کا نہیں کتے کا۔ کتا کسی برگر فیملی کا تھا۔ باہر سے منگوایا ہوا ' انسانوں سے بڑھ کے قدر تھی محترم کی جبھی تو اس کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہونے پر حوالات کی سیر کرا دی تھی اس کے مالک نے مجھے۔ اس معاملے کو نبٹا کے بینش کی جو صلواتیں اور نصیحتیں سننی پڑیں وہ الگ' میری گاڑی کا چالان ہو گیا اور اب یہ باس کی اینٹھی ہوئی شکل۔
" یار! میں تو تنگ آ گیا ہوں اس بے عزتی سے ۔ حیران ہوں آخر یہ ہو کیا رہا ہے میرے ساتھ؟"
میری شکل پر بارہ بجے دیکھ کر ساتھی نے ہمدردانہ نگاہوں سے مجھے دیکھا۔
" گردش حالات کہی جا سکتی ہے۔ مصیبتیں کبھی آزمائش ہوتی ہیں، کبھی مکافات عمل!"
اسفر کے کہنے پر میں نے گھور کر اسے دیکھا۔ یہاں سب خامخواہ محترم کو مولانا صاحب نہیں کہتے تھے۔ وعظ و نصیحت دل پسند کام تھا مگر میرے تو گویا زخموں پر نمک چھڑکا تھا جبھی دانت کچکچا کر رہ گیا۔
" اب اٹھ بھی جا' کیا باپ کی طرح کاہلی ' سستی اور کام چوری میں نام پیدا کرنے کا سوچ رکھا ہے۔ حد ہے بھئی اتنا نکما انسان میں نے زندگی میں
میں نہیں دیکھا۔ جانے کون سا منحوس وقت تھا جب میں
نے اس سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ کاش! اس فیصلے سے پہلے کسی ایک کو موت آ گئی ہوتی۔ اس نے میری زندگی برباد کر دی۔
یہ صوراسرائیل جیسی آواز میری بیوی بینش کی ہے جو بچوں کی پٹائی کرتے ہوئے خود لیٹے لیٹے ہی انہیں جگا رہی تھی۔ اب تو میری آنکھ ہر روز اسی کے شور سے کھلتی ہے جی تو چاہتا ہے کے مر جاؤں۔ میں اٹھا ہوں اور دبے پاؤں کچن کی جانب آ گیا ہوں۔ کچن کی حالت ابتر ہے۔ میری بیوی پھوہڑ ہر گز نہیں ہے اس لیے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتی سوائے لڑے طعنے دینے اور نقص نکالنے کے کام تو ملازمہ کرتی ہے یا پھر میں۔ ملازمہ چونکہ صبح کو نہیں ہوتی جبھی ناشتہ مجھے بنانا پڑتا ہے۔ بچوں کے یونیفارم استری کرنا اور انہیں تیار کے اسکول بھیجنے کی ذمہ داری بھی میری ہے۔ ارے کیا آپ میری داستان سے مجھ پر رحم تو نہیں کھانے لگے؟ اگر آیسا ہے تو اپنے احساسات سنبھال رکھیں کسی مستحق کے لیے کیونکہ میں ہرگز بھی اس قابل نہیں ہوں کہ مجھ سے ہمدردی بھی کی جائے۔ کل جب اسفر نے وہ بات کی تومجھے غصہ آیا تھا مگر رات جب بنیش نے بھی الفاظ کے کچھ ہیر پھیر کے ساتھ وہی بات کی تو میری آنکھوں پہ گرے وہ غفلت کے پردے سرک گئے۔ اپنا وہ عمل اپنی پوری جزئیات کے ساتھ ذہن کے پردے پر روشن ہوکر رہ گیا جس نے صحیح معنوں میں انسانیت کی سطح سے مجھے بہت نیچے گرا دیا تھا۔