SIZE
2 / 6

" سائیں! خدا کے لیے رحم کریں۔ میری بیوی تڑپ تڑپ کر مر جائے گی۔ کسی چھوٹی سی گاڑی کا انتظام کر دیں ۔" انہوں نے سنی ان سنی کر کے اندر کی جانب قدم بڑھاۓ۔

" سائیں۔۔۔۔ سائیں۔۔۔۔۔ میں آپ کا وو۔۔۔۔ووٹر۔"

چوکیدار اسے گھسیٹتا ہوا لے گیا۔ دو سیاہ آنکھوں سے نکلی التجا نے اندر تک اس کا پیچھا کیا۔

دو ٹکے کے لوگوں کو زرا شعور نہیں درد زدہ بیوی کو میری۔۔۔۔۔ میری پراڈو میں بٹھانے آیا ہے۔ کہیں جو پھٹ پڑے تو ساری گاڑی کا ستیاناس ۔" اس کے منہ سے مدہوشی کے مشروب وجود سے اقتدار کی بے حسی کے بھبکے اٹھنے لگے۔

عوائی خدمت گاروں نے ہمیشہ کی سرد مہری اوڑھ رکھی ہے۔ کوئی احساس نہیں جو ان برف کی سلوں کو پگھلا سکے۔

چار ماہ بعد انہوں نے عید پر آنے کی وجہ سے تعلقے میں کھلی کچہری لگائی۔

لوگ ان سے عید ملنے لگے۔ اپنے مسائل بتانے' درخواستیں دینے لگے۔ وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتے، مسکراہٹ کو زبردستی ہونٹوں پر لاتے۔ لوگوں سے مختلف کاموں کی درخواستیں اور سی ویز وصول کر کے اپنے سیکریٹری کو دیتے رہے۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر طوطا چشم سیاست دان سیاست کی بولی "حاضر' حاضر" کی رٹ لگاتا رہا ۔ شام پڑے اپنے شہر کے بنگلے پر واپس

آ ئے۔ اپنی ماں کے پاس ایک آور عرض گزار دیکھ کر انہیں بے تحاشا غصہ آیا۔

ابھی ابھی تو بوری بند ان دیکھی درخواستوں ' سی ویز کو دریا برد کرنے کا حکم دے کر آۓ تھے۔

" بیٹا! یہ صبح سے بیٹھی ہوئی ہے۔ اپنی بیٹی کی نوکری کے لیے آئی ہے۔"

وہ خاتون اسے دیکھ کر مؤدب سی کھڑی ہوگئی۔

" سائیں۔۔۔۔ میری بیٹی نے ایم ایڈ میں فرسٹ پوزیشن لی ہے۔ اسے کہیں ٹیچرلگا دیں۔"

اس نے بڑی امید سے سی وی اسے تھمائی۔ انہوں نے ناچار سی وی وصول کی ورنہ دل تو چاہ رہا تھا کہ گالیاں دے کر گھر سے نکال دیں۔

اور وہ جو سارادن ان کی ماں کو اپنی غربت میں بھی بیٹی کو پیٹ کاٹ کے ' کروشیه کاڑھ کے ' سلائی کرکے پڑھانے کے قصے سناتی رہی تھی ' خوشی خوشی رخصت ہوئی کہ وزیر موصوف نے سی وی خود اس سے لی ہے تو اب نوکری ضروردیں گے۔

وہ سر ہلاتے سی وی لے کر اپنے کمرے میں آئے' ڈسٹ بن میں سی وی پھینک کے ٹائی کی گرہ ڈھیلی کی۔

" تھک گئے ؟ " ان کی بیوی جو آئے دن پیرس' لندن' دبئی جائیداد خریدنے اور نئے اکاؤنٹ کھلوانے جاتی رہتی تھی۔ جو ملکی معروف کمپنیوں اور بینکوں میں شیئرز خریدنے کی رسیا تھی' نے اپنے کیوٹکس پر پھونک مارتے ہوئے پوچھا۔