SIZE
1 / 6

رات آدھی سے زیادہ بیتی جاتی تھی۔ ہوا نے خنکی کی چادر چہار سو پھیلا دی۔

بوجہ سردی موۓ تن کھڑے ہوتے رہے۔ وہ علاقہ سے مسلسل جیتنے والے اسمبلی ممبر ڈیفنس کے ایک فلیٹ سے شراب اور شباب سے خمار آلود ہو کے اپنے بنگلے پر آۓ۔

" سائیں۔۔۔۔! سائیں۔۔۔۔۔! ٹھٹھرتی سردی میں صرف شلوار، قمیض میں ملبوس مفلوک الحال اس کے پیچھے آیا۔

وہ ناگواری سے پلٹے۔

" سائیں۔۔۔ یہ آپ کی گاڑی کے پیچھے بھاگتا ہوا اندر داخل ہو گیا ہے۔" اسے روکنے کے لیے پیچھے سے دوڑ کر آگے والے چوکیدار نے اپنے ناکردہ جرم کی وضاحت دی ۔

" سائیں! میری بیوی مرجائے گی۔"

"کون ہو تم؟" وزیر موصوف کی اکڑی پر تنفر گردن میں جنبش ہوئی۔

" سائیں۔۔۔! سائیں۔۔۔! آپ کاووٹر۔ ہمیشہ آپ کو ووٹ دیتا ہوں۔" مفلوک الحال نے صدمے کی کیفیت میں اسے دیکھا۔ " ابھی ۔۔۔۔۔ابھی پچھلے الیکشن میں بھی تو

آپ ہی کو دیا ہے ۔" آواز جیسے اس اجنبیت پر فنا ہونے کو تھی۔

بڑے آدمی نے بھنویں سکیڑ کر اس اچھوت کو دیکھا۔ وہ اسے یاد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ بھلا یاد رکھنے کے قابل کب تھے؟ بس ان کو تو صرف ایک الیکشن کے دن ہی یاد کیا جا سکتا تھا۔

" سائیں! میری بیوی کو بچہ ہونے والا ہے۔ اسپتال صرف آدھے گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ کہیں کوئی گاڑی نہیں مل رہی۔" اس نے کہتے ہوئے عاجزی سے ہاتھ باندھے۔ آپ عنایت کیجیے! اگر تھوڑی دیر کے لیے اپنی کوئی گاڑی دے دیں تو میں اپنی بیوی کو اسپتال پہنچا سکوں۔"

نا امیدی کی کیفیت میں اس نے آس بھری نگاہ سے گاڑیوں کی لمبی لائن کو دیکھتے ہوئے عرض کیا۔

اس کی بات سنتے ہی چہرے کے تناو میں اضافہ ہوگیا۔ پیشانی پر شکنوں کا جال بچھ گیا۔ لب بھینچ کر چوکیدار کو غصے سے دیکھا۔

چوکیداران کی آنکھوں سے پیغام وصول کرتے ہی فورا مستعد ہوا۔ اسے شانے سے پکڑا۔

" ابے چل! بڑا آیا گاڑی لینے والا۔ شکل دیکھی ہے اپنی' پراڈو میں بیٹھنے والی ہے؟"