SIZE
5 / 12

کیا انہوں نے اسے ان بہوؤں کی طرح سمجھ لیا تھا جو اتے ہی بیٹے اور اس کے گھر پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں اپنے بارے میں منفی سوچ بھی تو غلط تھی ان کی ۔ مجھے سمجھنے کی بجاۓ ساری برائیاں میری ذات سے منسوب کر لیں۔ یہ بھی اچھی رہی' غصے سے اس کا دل بھر گیا۔ یہی غلط خیالات ' غلط روش کو جنم نہ دے دیں' باغیانہ خیالات دماغ میں کلبلانے لگے۔ میری ذات کی نفی کر کے اپنے اپ کو مظلوم سمجھ رہی ہیں جو میں ہوں نہیں وہ مجھے سمجھ رہی ہیں ۔ ساری رات انہی خیالات کی یورش میں گزر گئی۔

" زوار بیٹا گھر کا کام کہاں تک پہنچا؟ تم ذرا آفس سے ہٹ کے اس کام میں بھی دلچسپی لو۔ میں تو بھاگ دوڑ کر نہیں سکتی۔" اس رات انہون نے معمول سے ہٹ کے اپنے بیٹے سے کوئی بات کی۔

" میں روز آفس جاتے ہوۓ اور واپسی پر چکر لگاتا ہوں جہاں ہدایات کی ضرورت ہوتی ہے وہ دے دیتا ہوں۔ آپ فکر نہ کریں ویسے بھی گھر اب اختتامی مراحل میں ہے' مزید کسی چیز کی ضرورت ہو گی تو چھٹی والے روز لے آؤں گا۔"

" ہاں میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ جتنی جلدی ممکن ہو رنگ روغن بھی ہو جاۓ تاکہ اسے تمہارے سپرد کر کے خود پر سکون ہو جاؤں۔" یہ تھا گفتگو کا لب لباب جس موضوع کو معمول سے ہٹ کے وہ سمجھی تھی وہ اس کی غلط فہمی تھی۔

" کیا بات کر رہی ہیں آپ بھی امی! پہلے بھی میں نے آپ کو کہا ہے کہ میں اپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا پھر بھی اپ کی وہی ضد ہے پلیز ایسی باتیں مت کریں۔"

" لفاظیوں کے سہارے زندگی گزر جاتی تو انسان رشتوں کا محتاج بھی نہیں ہوتا۔ وہ تو شکر ہے خدا کا میں انسان کی احتیاجات وقت سے پہلے جان گئی ہوں جو کام کل لڑ جھگڑ کر ہونا ہے وہ عزت و آبرو کے ساتھ آج کیوں نہ ہو جاۓ۔"

کون لڑ رہا ہے امی! چار مہینے تو ہوگئے ہیں ہمیں ساتھ رہتے ہوئے ابھی تک اپ مجھے سمجھ نہیں پائی ہیں۔ " اب اس سے رہا نہ گیا۔

" میں تم سے بات نہیں کہہ رہی اپنے بیٹے سے کررہی ہوں تم پر میرا اختیار ہی کیا ہے جو کچھ کہوں گی۔"

" ہاں تو جس پر اختیار ہے اسی کو کیوں اپنے اختیارات سے بے دخل کر رہی ہیں' سارے فیصلے آپ خود سناتی ہیں' ساری باتیں خود سے اخذ کرتی ہیں سامنے والے کے احساسات اور خیالات کی پروا کیے بغیر۔"

"زوار.... "وہ خلاف معمول زور سے چلائی تھیں۔ "بیٹا اس سے کہو ہمارے معاملات میں نہ بولے۔"

" میں اس گھر کی فرد ہوں اور ہر اس مسئلے میں بولنے کا حق رکھتی ہوں جو میری ذات سے وابستہ ہے ۔ جس گھر میں آپ بھیجنا چاہ رہی ہیں کیا صرف زوار جائیں گے میں نہیں جاؤں گی تویہ مجھ سے متعلق بات ہوئی کہ نہیں؟" وہ اپنے مزاج اور تربیت کے خلاف خودبھی چلا اٹھی۔ برداشت سے باہر ہو ان کی غلط فہمیاں ۔۔۔۔۔۔

" چلاؤ مت۔۔۔۔۔۔ " تمہیں جانا ہی ہے آج نہیں تو کل تو پھر کیوں نہ میں آج ہی اپنے بیٹے سے دستبردار ہوجاؤں' اسی میں میری ناموس کی بقا ہے۔ اس عمر میں اپنی عزت کو سرعام رسوا کرنے سے بہتر ہے عزت و احترام کے ساتھ ہم الگ ہو جائیں کل کوخود چھوٹی چھوٹی باتوں کورائی کا پہاڑبنا کر تم اپنے شوہر کے آگے پیش کرو گی اور میں بدنام ہوں گی' میں یہ نہیں چاہتی۔"