SIZE
4 / 12

وہ اس اسرار کو کھولنا چاہتی تھی کہ بیٹے کی شادی کے بعد انہوں پر نے پژمردگی کی چادر کیوں اوڑھ لی؟ مائیں تو بیٹوں کے سرپر سہرا دیکھنے کی متمنی ہوتی ہیں۔ ہزارارمان ان کے بیٹے سے وابستہ ہوتے ہیں یہ کیسی ماں تھیں جنہیں اس شادی سے کوئی خوشی نہیں ملی۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ پوشی ہورہی تھی ' خود سے ان کی ناپسندیدگی کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی تھی ۔ وہ کون سا زوار کی پسند تھی ایک جاننے والی نے یہ رشتہ کرایا تھا۔ امی جب اسے دیکھنے آئیں بھی تو بہت سنجیدہ اورکم گو لگی تھیں ۔ وہ سمجھی یہ ان کے مزاج کا عنصر ہے لیکن نہیں وہ تبدیل ہوئی تھیں بغیراس سے کسی لڑائی جھگڑے اور بحث و مباحثہ کے وہ لیے دیئے انداز میں رہنے لگی تھیں۔

ایک دن ساتھ والی انٹی ان سے ملنے آ گئیں وہ انہیں چائے وغیرہ دے کر دوبارہ کچن میں آ گئی تھی اب کچھ نہ کام وہ زبردستی سرانجام دیا کرتی تھی جس پر ان کی پیشانی پر کچھ بل ضرور پڑ جاتے لیکن زبان سے کچھ نہ کہا کرتیں' یہ بھی غنیمت تھا اس کے لیے۔ ایک بار اتفاقیہ ڈرائنگ روم کی طرف آئی تو عجیب ہی منظر دیکھا' وہ آنٹی

چشمہ انکھوں سے ہٹا کر اپنے آنسو صاف کررہی تھیں اور امی خاموشی سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ اسے دیکھتے ہی انہوں نے دوباره چشمہ آنکھوں پر جماليا مبادا ان کی بھیگی آنکھیں وہ دیکھ لے مگر امی اسے دیکھ نہ پائیں اسی لیے اپنی رو میں بولنے لگیں۔

" آپ کو کس نے کہا تھا کہ بہو جیسی چیز سے توقعات وابستہ کرنے کو بہوئیں تو وہ سپر پاور ہوتی ہیں جو خون جگر سے پروان چڑھائے بیٹے کو پل بھر میں چھین کر فتح کا جشن مناتی ہیں اور سارا الزام بھی ماؤں پر ڈال دیتی ہیں۔" اس کا وجود سناٹے میں آ گیا' پلک جھپکتے ہی وہ دروازے کی اوٹ میں ہوئی کہ دیدہ دلیری سے ان کی باتیں نہیں سن سکتی تھی۔

" میں نے سوچا بھانجی ہے' گھر کو گھر سمجھے گی ' مجھے بھی بڑھاپے کا آسر مل جائے گا' بہن کی بیٹی اس لیے پورے ارمان کے ساتھ اسے بیاہ کرلائی لیکن وہ باقی دونوں بہوؤں کے ساتھ مل کر محاز کھڑا کررہی ہے۔ میرے مرحوم شوہر کی آخری نشانی یہ گھر کر تینوں بیٹے اپنا حق مانگ رہے ہیں' یہ بھی نہیں سوچ رہے میں کنواری بیٹی کو لے کر کہاں در در کی ٹھوکریں کھاتی رہوں گی اور اب یہ حال ہے کل کو مجھے کسی نے برداشت نہیں کیا تو کہاں جاؤں گی؟"

" یہی تو المیہ ہے بیٹوں کی ماؤں کے بہوؤں سے کچھ زیادہ ہی توقعات لگا بیٹھتی ہیں۔ بھانجی' بھتیجیوں کو بیاہ کر لاتی ہیں کہ ان کی طرح گھر دار بن کر رہیں گی خاندانی لڑکیاں' پر بہو ہر حال میں بہو ہی بن جاتی ہے' بھانجیوں اور بھتیجیوں جیسے رشتے کی پاسداری کیے بنا ۔"

اتنا زہر اس رشتے کے خلاف ان کے دل میں بھرا ہوا تھا۔ یہ صحیح تھا کہ اب ساس بہو کا رشتہ ماں بیٹی والا نہیں رہا تھت بلکہ شاید کبھی نہیں رہا ہوگا لیکن ہر دور میں اس خوب صورت رشتے کو نبھانے والی ساس اور اس رشتے کو عزت و وقار بخشنے والی بہو کہیں نہ کہیں ضرور ہے پھر امی کے دل میں اس رشتے کے خلاف اتنی گہری کائی کیوں جمی ہوئی تھی۔

کیوں اس کے گھر میں قدم رکھتے ہی وہ عمر رسیدہ عورتوں کی طرح اپنے آپ کو ادم بیزار سمجھنے لگی تھیں۔ اپنی ذات کے خول میں کیوں انہوں نے خود کو بند کر لیا تھا؟