" جی امی کوئی کام ہے کیا؟" اس نے لٹھ مار انداز میں پوچھا۔
" میری ایسی مجال کہاں کہ تمہیں کسی کام کا کہوں ' میں نے تو تمہیں معافی مانگنے کے لیے بلایا ہے' معاف کر دو بھئی ہم نے کل تمہاری شان میں کچھ گستاخی کر دی تھی' تمہارے چہرے کے زاویے درست ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے مان لیا بھئی بہت بڑا قصور سرزد ہو گیا تھا مجھ سے ائندہ ہماری توبہ جو تمہیں کسی بات پر ٹوکا' ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہیں تم سے۔" وہ اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں بہو سے مخاطب تھیں' ہاتھ بھی جوڑ دیے' پاس بیٹھی ہما نے بوکھلا کر پہلے ساس اور پھر دیورانی کو دیکھا اسے پتا تھا کہ شازمین اب بری طرح سٹپٹا جاۓ گی کیسی ناراضگی' کہاں کی ناراضگی ' اسے اپنے کردہ ' نا کردہ جرم کی فورا معافی مانگنی پڑے گی' ساس کے جڑے ہاتھ کھولتے ہوۓ اسے اسے کتنی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
" حد کرتی ہیں آپ امی جان کیوں مجھے گناہ گار کر رہی ہیں آپ بڑی ہیں ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک کا اختیار رکھتی ہیں آئندہ آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گی۔" ہما منتظر تھی کہ شازمین کچھ اس طرح کے جملے بولے گی مگر وہ بولی تو کیا۔
" مجھے اندازہ تھا امی جان کہ آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاۓ گا اب اس بات کو جانے دیں بس آئندہ خیال کیجیے گا۔" بہت بے نیازی سے ساس کی جانب فقرہ اچھال کر شازمین کچن مین گھس گئی' زینب بیگم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں' بے ساختہ قہقہے کا گلا گھونٹنے کا جتن کرتے ہوۓ ہما کے دانت بھینچ گئے تھے اور آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا اس وقت تو اس نے جیسے تیسے ضبط سے کام لیا مگر اپنے کمرے میں جا کر دل کھول کر ہنسی تھی بعد میں اس نے شازمین کو سمجھایا ضرور تھا۔
" آئندہ ایسی بے وقوفی مت کرنا امی بڑی ہیں تمہیں ان کا دب ' لحاظ ' ملحوظ رکھنا چاہیے تھا' ایسی حرکتوں سے وہ تم سے مزید برگشتہ ہو جائیں گی۔" اس نے شازمین کو رسانیت سے مخاطب کیا۔
" جانتی ہوں ہما بھابی' آئندہ احتیاط کروں گی لیکن میں بھی کیا کرتی امی جان کی طنزیہ باتیں اب میری برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھیں' اب کچھ دن تک میں اپنی زبان قابو میں رکھوں گی تو کم از کم امی جان بھی کوئی طنزیہ بات کہنے سے پہلے تین بار تو ضرور سوچیں گی ۔" شازمین مزے سے بولی تب ہما نے اسے تادیبی انداز میں گھورنا چاہا تھا مگر اگلے ہی پل وہ ہنس پڑی تھی۔
شازمین کے طرز عمل سے اختلاف ہی سہی مگر جینے کا یہ انداز اس کے من کو بھا گیا تھا۔