اور پھر درجنوں لڑکیاں مسترد کرنے کے بعد زینب بیگم نے چھوٹی بہو ڈھونڈ ہی لی تھی' خوب امیر کبیر فیملی تھی لڑکی بھی بہت خوب صورت تھی خوب دھوم دھام سے ہما کے دیور کی شادی ہوئی اور نازک اندام شازمین دلہن بن کر سسرال پہنچ گئی ' زینب بیگم نے شروع شروع میں نئی بہو کے خوب چاؤ چونچلے اٹھاۓ بلکہ یہ چونچلے ہما کو ہی اٹھانے پڑے کہ امی جان کو تو صرف حکم دینا آتا تھا پھر شادی کے دو برس کے بعد اللہ نے ہما کو خوشخبری سے نواز دیا' ہما کا رواں رواں اپنے رب کا شکر گزار تھا ثاقب کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہ تھا گائنا کولوجسٹ نے ہما کی ویکنیس کی وجہ سے اسے بھرپور ڈائٹ اور مکمل ریسٹ کی تلقین کی تھی۔ ثاقب نے گھر آ کر ڈاکٹر کی نصیحتیں من و عن دہرا دی تھیں۔
" ہاں بھئی انوکھا بچہ پیدا کرنے چلی ہیں بہو بیگم۔" زینب بیگم بھی خوش تو تھیں لیکن طنزیہ فقرہ بولے بنا نہ رہ پائیں۔ بہرحال انہوں نے چھوٹی دلہن کو گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی ہدایت کر دی تھی سچ بھی یہی تھا کہ انہیں شازمین کا ہر وقت کمرہ بند کر کے آرام کرنا کھلنے لگا تھا شازمین نے گھر کے کاموں میں حصہ لینا شروع تو کر دیا تھا لیکن وہ گھریلو کام کاج میں اناڑی تھی۔
ہما سے طریقے پوچھ کر کوکنگ کرتی چیز اچھی پک جاتی تو فراخدلی سے اس کا کریڈٹ سب کے سامنے ہما کو ہی دیتی' دیورانی کے حوالے سے ہما کے ذہن میں جو خدشات تھے وہ اب دم توڑ چکے تھے شازمین اچھے مزاج کی لڑکی تھی وہ ہما کو جیٹھانی نہیں بلکہ بڑی بہن کا درجہ دیتی تھی' ہما کا بھی اس ہنس مکھ اور لا ابالی سی لڑکی سے بہت محبت والا تعلق استوار ہو گیا تھا شازمین کے مزاج میں بہت بچپنا بھی تھا ہما اس کی اکثر بے وقوفیوں پر ہنس ہنس کر دہری ہو جاتی لیکن پھر اسے عقل سے کام لینے کی ہدایت بھی کرتی' دونوں دیورانی جیٹھانی کا تعلق دیکھ کر زینب بیگم بے چین سی رہتیں، ہما پرانی تھی انہیں اس پر زیادہ نہ آتا البتہ شازمین کے طور طریقے ان کی برداشت سے باہر ہوتے جا رہے تھے سرمد تو ثاقب سے بڑھ کر زن مرید ثابت ہو رہا تھا زینب بیگم بیوی سے اس کا التفات دیکھ کر پہروں کڑھتیں ، اب ان کی توپوں کا رخ شازمین کی جانب ہو گیا تھا لیکن شازمین میں ہما جیسی برداشت نہ تھی' اس روز جب شازمین اور سرمد شام کو سیر سپاٹے کے لیے نکل رہے تھے زینب بیگم کو جلال چڑھ گیا انہوں نے روز روز کے سیر سپاٹوں پر بیٹے' بہو کو بے نقط سنائی سرمد تو ماں کے پاس بیٹھ کر ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا رہا شازمین واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔
" میرا گھٹنا پکڑ کر کیوں بیٹھا ہے جا کر اپنی بیوی کو منا دیکھا نہیں کیسے تن فن کرتی گئی ہے۔" انہوں نے سرمد کو جھڑکا۔
" پہلے آپ کو تو منا لوں پھر بیوی کو بھی منا لوں گا مرد بے چارہ تو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستا رہتا ہے۔" سرمد نے ٹھنڈی سانس بھر کر خود کلامی کی زینب بیگم بیٹے کو گھور کر رہ گئی۔ رات تک شازمین کمرے سے باہر نہ نکلی' زینب بیگم کو بہو پر مزید تاؤ چڑھتا رہا' صبح شازمین کمرے سے نکلی تب بھی اس کے چہرے کے زاویے بگڑے ہی ہوۓ تھے کوئی بہو بھی یوں تیور دکھا سکتی ہے یہ زینب بیگم کے لیے نیا تجربہ تھا سرمد اور ثاقب آفس چلے گئے تو زینب بیگم نے بہو کی طبعیت صاف کرنے کی ٹھانی ، شازمین ہنوز منہ پھلاۓ اپنے حصے کا کام نمٹاتی پھر رہی تھی جب زینب بیگم نے اسے آواز دے کر بلایا ۔