SIZE
2 / 5

" کتنی دیر سے اپنے کمرے میں لیٹی تھی کانوں میں آوازیں تو پڑ رہی تھیں' بہو کی چہکتی آواز سن کر اندازہ تو ہو گیا تھا کہ کوئی خاص مہمان ملنے آۓ ہیں پہلے تو ہم منتظر رہے کہ کوئی ہم سے ملنے ہمارے بھی کمرے میں جھانکے گا پھر سوچا کیوں بہو کے معزز مہمانوں کو اپنے کمرے تک آنے کی زحمت دوں خود ہی سلام کرنے حاضر ہو جاتی ہوں۔" چہرے ہر مسکراہٹ سجا کر امی جان پرتپاک انداز میں تارہ آپی سے ملی تھیں لیکن ان کا طنزیہ لہجہ کسی طور پر نظر انداز کرنے کے قابل نہ تھا ایک لمحے کو تو تارہ آپی بھی چپ کی چپ رہ گئی تھیں ہما کی تو ایسے کسی بھی موقع پر خود بخود بولتی ہی بند ہو جاتی تھی آخربھابی نے ہی ان سے ان کی طبیعت کے متعلق استفسار کر کے گفتگو کا موضوع بدلنے کی کوشش کی۔

" گھٹنوں اور جوڑوں کے درد نے عاجز کر رکھا ہے' بیٹی لیکن شکر ہے پھر بھی اللہ نے اتنی ہمت دے رکھی ہے کہ اپنے کام لشم پشم خود ہی نمٹا لیتے ہیں کسی کا احسان لینے کی نوبت نہیں آتی۔" سیدھے سے سوال کا پھر ٹیڑھا سا جواب ملا تھا چھوٹی بھابی خود خاصی تنگ مزاج تھیں انہوں نے ہما کی ساس کو مزید لفٹ کرانا مناسب نہ سمجھا۔

" چلو اپنے بیڈ روم میں آ کر اے سی آن کرو' میں تمہارے بیڈ پر دو گھڑی لیٹ کر کمر سیدھی کر لوں' اب تو زیادہ دیر نہ تو کھڑا ہوا جاتا ہے نہ بیٹھا جاتا ہے۔" بھابی نے ہما کو مخاطب کیا ان کی پریگننسی کا آخری مہینہ چل رہا تھا تارہ آپی جانے کیا سوچ کر انہیں ساتھ لے ائی تھیں ان کی ہئیت دیکھ کر ہما کو خود ہی شرم سی آ گئی وہ فورا انہیں ساتھ لیے اپنے بیڈ روم میں آ گئی' تارہ آپی مروت میں اس کی ساس کے پاس لاؤنج میں ہی بیٹھ کر گپ شپ لگانے لگی تھیں۔ شکر ہے ثاقب کسی کام سے گھر سے باہر گئے ہوۓ تھے چھوٹی بھابی مزے سے پاؤں پسار کر بیڈ پر لیٹ گئی تھیں۔

" آپ گھر پر ریسٹ کرتی بھابی تارہ آپی کے ساتھ کسی اور کو بھیج دیتیں۔" اس نے رسانیت سے انہیں مخاطب کیا۔

" گھر پر تمہاری بڑی بھابی کے میکے والوں نے ہلہ بول رکھا تھا بڑی بھابی کو میری طبیعت کی کب پروا ہوتی ہے اپنے پورے خاندان کو ظہرانے پر مدعو کیا وہ تو شکر ہے تارہ باجی آ گئی میں تو فورا ان کے ساتھ نکل آئی' اب تمہارے ہاں سے فارغ ہو کر آصفہ چچی کے ہاں جانے کا ارادہ ہے۔" چھوٹی بھابی نے بتایا تو ہما نے اثبات میں سر ہلایا پھر انہیں ٹی وی کا ریموٹ سے کر خود خاطر تواضع کا سامان کرنے کچن میں جا گھسی تھی۔ کولڈ ڈرنکس اور اسنیکس کی ٹرے لے کر جب وہ واپس بیڈ روم میں آئی تو تارہ آپی بھی وہیں آ گئی تھیں اور اب اس کی ساس کی تیزی طراری پر اظہار خیال کر رہی تھیں۔

" ثاقب اپنی ماں کو ایسی باتوں پر نہیں ٹوکتا کیا بندہ گھر آۓ مہمان کا ہی کچھ لحاظ کر لیتا ہے تمہارے بارے میں مستقل طنزیہ فقرے بولتی رہیں ' میرے جی میں تو آیا کہ کہوں کہ ہمارے خاندان کی سب سے بھولی بھالی بچی سے بھی اگر آپ کو شکایت ہے تو پھر آپ کا اللہ ہی حافظ ہے بڑی بی' پھر یہ سوچ کر خاموش رہی کہ میں تو زرا سی دیر میں چلی جاؤں گی بعد میں تمہیں ان کی اور الٹی سیدھی برداشت کرنا پڑے گی۔" تارہ آپی کو ہما کی خرانٹ ساس سے مل کر ٹھیک ٹھاک غصہ آ گیا تھا۔