SIZE
1 / 7

کہتے ہیں کہ کبھی کبھی انسان کا کہا ہوا کوئی جملہ' اس کی کوئی سوچ قدرت کچھ اس طرح اس کے منہ پر دے مارتا ہے کہ وہ حیران رہ جاتا ہے۔ اسی لیے تو یہ محاورہ لوگوں کے تجربات کے بنا پر شاید ایجاد ہوا ہے کہ never say never اور اس پر بھی یہ محاورہ کچھ ایسا صادق ایا تھا کہ وہ اپنی ہی کہی ہوئی بات پر اب شرمندہ سی رہتی تھی۔ اس نے تو اپنی کزنز اور دوستوں سے بھی ملنا جلنا کم کر دیا تھا کہ اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان کی نگاہوں میں اس کے لیے عجیب سا تمسخر ہوتا ہے اور وہ نگاہیں کچھ نہ کہتے ہوۓ بھی اسے بہت کچھ یاد دلا دیتی تھیں۔ اسے بہت مان سے کہے ہوۓ جملے خود اپنے اوپر ہنستے ہوۓ محسوس ہوۓ اور وہ دل مسوس کر رہ جاتی۔

اس وقت بھی وہ بھاری دل کے ساتھ نئی نئی شادی کے سلسلے میں دی گئی ایک دعوت سے ابھی ابھی واپس لوٹی تھی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی بہت کھوۓ ہوۓ سے انداز میں اپنی جیولری اتار رہی تھی ' تبھی سمیر اس کے نزدیک چلا آیا۔

" کیا بات ہے بھئی' ہماری پیاری بیگم اتنی چپ چپ سی کیوں ہیں؟ یار! راستے میں بھی تم میری ہر بات کا جواب بس ہوں ہاں میں دے رہی تھیں۔"

سمیر نے بہت محبت سے اس کے شانوں پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوۓ آئینے میں عکس کو دیکھا تو ایک بجھی ہوئی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔

" نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں' بس سر میں درد ہو رہا ہے۔"

"اوہ تو پہلے کیوں نہیں بتایا میں ابھی سر درد کی ٹیبلٹ لاتا ہوں۔" وہ کچھ پریشان سا ہو کر پلٹا۔ وہ منع ہی کرتی رہ گئی لیکن کچھ ہی دیر میں وہ ٹیبلٹ مع ایک گلاس پانی لیے اس کے پاس کھڑا تھا۔

" آج تم ماشاء اللہ کچھ زیادہ ہی حسین لگ رہی تھیں' سو فیصد تمہیں نظر لگ گئی ہے۔" کتنے وثوق سے وہ کہہ رہا تھا' علینا کلس کر رہ گئی۔

" اونہہ میں حسین لگ رہی تھی' وہاں تو ایک نظر بھی مجھ پر ڈالنے کی فرصت نہیں ملی خواتین میں راجہ اندر بنے بیٹھے رہے اب گھر آ کر میرا خیال آ رہا ہے۔" وہ دل ہی دل میں سوچتی ہوئی کچھ الجھ کر کھڑی ہو گئی۔ سمیر کی ہتھیلی پر دھری ٹیبلٹ اٹھا کر منہ میں رکھی اور پھر پانی کا گلاس ایک سانس میں خالی کر کے سمیر کے ہاتھوں میں واپس تھما کر وہ منہ دھونے واش روم میں گھس گئی۔ پتا نہیں منہ دھونا تھا یا وہ آنسو چھپانے تھے جو لاکھ روکنے کے باوجود ایک ضدی بچے کی مانند آنکھوں میں آنے کے لیے مچلے جا رہے تھے۔