" اماں! چاند دیکھا آپ نے؟" چاند نے طاہرہ بیگم کے ساتھ تخت پر بیٹھتے ہوۓ پوچھا وہ جو شیر خورمے کے لیے بادام کاٹ رہی تھیں ۔ اسے دیکھتے ہوۓ بولیں۔
" پچس برس سے دیکھ رہی ہوں تجھے۔"
" یہ چاند تو آپ نے چرایا تھا ناں' میں تو اس چاند کی بات ر رہا ہوں جو اللہ نے نکالا ہے آسمان پر عید کا چاند وہ دیکھا آپ نے؟" چاند نے بادام کی گری اٹھا کر منہ میں ڈالتے ہوۓ استفسار کیا۔
" میری دور کی نظر کمزور ہےمجھے کیا دکھے گا عید کا چاند۔"
" قریب کی نطر تو سلامت ہے ناں' تو مجھے غور سے دیکھ لو اور یہ بتاؤ کہ اس چاند کے بیٹے کو چندا کا دولہا کب بنا رہی ہو؟" وہ مسکراتے ہوۓ شوخ لہجے میں بولا۔
طاہرہ بیگم نے تقریبا چھ فٹ لمبے' گورے چٹے ہلکی سی بڑھی ہوئی شیو میں سیاہ روشن آنکھوں والے اپنے خوبرو وسیم ارشد عرف چاند کو پیار سے دیکھا۔
" بہت شوق ہے تجھے دلہا بننے کا؟"
" نہیں شوق تو مجھے ابا بننے کا ہے چاند ستاروں جیسے بچوں کا۔" وہ شوخ و شریر لہجے میں بولا۔
" تو مشتری سے شادی کر لے۔" وہ بولیں۔
" اماں۔۔۔۔۔ مذاق نہیں کریں ناں۔ ہمارے سارے دوست بیوی کے بعد بچوں والے بھی ہو گئے ہیں اور ہم ابھی تک ایک عدد منگیتر لیے بیٹھے ہیں۔ اسے بھی ترقی دیجیے اور ہماری زوجہ محترمہ بھی مسز چاند ۔۔۔۔ بنا دیجیے۔" چاند نے بہت مودب لہجے میں کہا تو وہ اسے دیکھتے ہوۓ بولیں۔
" بڑی ادبی زبان بول رہا ہے چکر کیا ہے؟"
" چکر تو تب آئیں گے جب ہمارا بیاہ ہو گا اور آپ ہونے نہیں دیتیں۔"
" اے ہے دیکھ تو کیسا بے شرم ہو گیا ہے ماں کے سامنے اپنے منہ سے شادی' بیوی' بچوں کی باتیں کر رہا ہے۔"
" ہر کوئی شادی بیاہ کی باتیں اپنے منہ سے ہی کرتا ہے۔ پیر سے تھوڑی کرتا ہے۔" چاند نے فٹ سے جواب دیا۔
" چل اٹھ یہاں سے اور جا کے مجھے تازہ دودھ اور چاول لا کر دے۔ شیر خورمہ پکاؤں گی میں۔" طاہرہ بیگم نے اسے گھرکا اور زرا حکمیہ لہجے میں کہا تو وہ فورا بولا۔
" پکانے کے علاوہ کچھ آتا بھی ہے آپ کو۔"
" کیا بولا؟" ان کی سمجھ میں نہیں آئی تھی اس کی بات کی گہرائی اور معنی فورا پوچھا۔
" کچھ نہیں۔" وہ مسکراتے ہوۓ بولا۔
اسی وقت اس کی منگیتر بیس سالہ خوب صورت سی چندا سجی سنوری ہاتھوں میں مٹھائی کا ڈبہ اٹھاۓ صحن کے کھلے دروازے سے پردہ ہٹاتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی اور ان کی طرف آتے ہوۓ بولی۔