سیر سپاٹوں کی شائق تھی یا طرح طرح کی ڈشز پکا کر ہر وقت کے دستر خوان کا لطف اٹھاتی اور میرا دل جلاتی' ایسا کچھ نہیں تھا وہ نپا تلا پکاتی اور فرض محال کوئی ڈش بچ جاتی تو دوسرے دن اسے ایک نئی طرز پر پکا کر مجھے اور بچوں کو کھانے پر مجبور کر دیتی کہ میرا دل جلبلا جاتا۔ دن بھر کی تھکن کے بعد جب یہ نو لکھا قسم کا کھانا ملتا تو دل کرتا یہ عجوبہ اس کے سر پر الٹ دوں اور وہ اسی اطمینان سے کھا رہی ہوتی جیسے فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھ کر طرح طرح کی ڈشز کا مزا لوٹ رہی ہو۔ کپڑے بھی اتنے سادہ اور گھسے ہوۓ پہنتی کہ جوانی میں ہی عمر رسیدہ بڑھیا لگتی۔ مجھے لگتا تھا جیسے وہ اپنے میکے والوں کو چوری چھپے یہ پیسے دیتی ہے' بوڑھی ماں اور کنواری بہن کی ڈھکے چھپے مدد کرتی ہے یا یہ خیال اضطراب میں مبتلا کرتا کہ اپنے دھانسو قسم کے بھائیوں کے گھر آۓ دن منعقد ہونے والی تقریبات میں ان کے ہم پلہ گفٹ نوازتی ہے یہ خیال آتے ہی میرا خون اندر ہی اندر کھول اٹھتا مگر غم و غصے کا یہ سیلاب مصلحت کے بند کے آگے بے بس تھا۔ پتا تھا زرا سا بھی ان خیالات کا اظہار اس کی بحث کو ایسی ہوا دیتا کہ میں برسوں جلتا رہتا۔ اس وقت بھی بڑے مزے سے وہ کرن کے دوپٹے میں بیل لگا رہی تھی۔ میری اچٹتی نگاہ گاہے بگاہے اس کے بے فکر وجود کا طواف کر لیتی۔
" اس گھر میں میری بچی کی آخری عید ہے' اسے اچھی طرح سے تیار کروں گی میں ' کتنی کم عمری میں بیاہی جا رہی ہے ورنہ خاندان میں ابھی اس عمر کی بچیاں کدکڑے لگاتی پھر رہی ہیں' خدا نے وقت سے پہلے میری بچی میں فہم و فراست بھی اتار دیا۔" لہجے میں پیار کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
" خدانخواستہ کیوں ہو گی آخری عید' ایسی بہت ساری عیدوں میں آتی جاتی رہے گی۔ شادی کے بعد کوئی اس پر گھر کے دروازے بند تھوڑی ہوں گے۔" میری چڑ نے مزاج میں بھی درشتگی پیدا کر دی۔ جان بوجھ کر اس کی بات سے مجھے اختلاف پیدا ہوا۔
" ارے میں کنوار پن کی عید کی بات کر رہی ہوں وگرنہ اللہ رکھے ہستی بستی میاں کے سنگ آۓ گی پل بھر کو پھر چلی جاۓ گی۔ ماں باپ کے سنگ تو نہیں رہے گی نا۔"
" ہنہ۔۔۔۔" میری مجبوریوں کے برعکس کتنی سر خوشی میں ہے یہ۔ دوپٹے پر آخری ٹانکا لگا کر تیزی سے اندر چلی گئی۔ پتا تھا اب اسے اوڑھا کر دیکھے گی اور نظروں ہی نظروں میں بلائیں اتارے گی۔ عورت کی اس صفت سے میں حد درجے کا خار کھانے لگا تھا۔ میرا بال بال قرضے میں جکڑ چکا تھااور یہ اپنی خوشیوں اور من مانی کے تانے بانوں میں الجھی ہوئی تھی۔ کاش ان دو معصوم اور فرمانبردار بچوں کا ساتھ نہ ہوتا تو آغاز سے ہی اس عورت کے مزاج ٹھکانے لگا دیتا' لیکن بچوں کے سامنے اس سے الجھنا اپنی زندگی کو ملیا میٹ کر دینے کے برابر تھا۔
کتنے اچھے تھے شادی کے اغاز کے دن ' قلیل تنخواہ تھی پر سب پر تصرف میری ذات کا تھا۔ اپنی مرضی اور حاکمیت سے اسے ایک مخصوص رقم پکڑا کر سب اپنی پاکٹ میں رکھتا' گھر اۓ مہمانوں ' دوستوں پر اپنی مرضی سے دل کھول کر خرچ کرتا' پھر گھر آۓ مہمان بھی میری دریا دلی سے واقف تھے اس لیے کچھ زیادہ ہی میرا گیسٹ ہاؤس کا منظر پیش کرتا۔ پھر یہ کایا زہرا بیگم نے پلٹ دی۔ میری تنخواہ کسی بھتہ خور کی طرح اپنے ہاتھ میں لے کر میری خواہشات پر راج