" ٹھیک ہے کل کی بریانی بچی ہے' میں اور کرن کھا لیں گے اور ہادی تو افطار کے بعد کچھ نہیں کھاتا اس لیے پکانے کی ضرورت ہی نہیں۔" ایک طرح سے مطمئن ہو کر اس نے فیصلہ سنا دیا۔
" ہنہ۔۔۔۔۔ تم سے اور توقع بھی کیا ہو سکتی ہے۔" وہ جا چکی تھی اور میں پھر سے اپنی سوچوں کے تانے بانے میں الجھ چکا تھا' کوئی سرا ہی نظر نہیں آ رہا تھا اس جال سے نکلنے کا۔
جانے آج کل کی شادیاں اتنی مشکلات لیے کیوں انجام پاتی ہیں۔ آخر ہمارے پیغمبروں نے بھی تو اپنی صاحبزادیوں کو بیاہا ہے' کس سادگی ' وقار اور تمکنت کے ساتھ کہ مثال نہیں ملتی اور آج کل کی شادیاں تو جیسے روپے پیسے کے بل بوتے پر ہو رہی ہیں۔ دولت نے جہاں اسلامی اقدار و روایات کو فراموش کرنے پر مجبور کر دیا ہے وہاں تکلفات نے انسان کو نت نئی پریشانیوں میں بھی جکڑ لیا ہے۔ جن کے در پر امارت سینہ سپر ہو کر کھڑی ہے ان کے لیے ہر راہ سہل ہے اور جہاں غربت ہاتھ باندھے کھڑی ہو ان کے لیے قدم قدم پر مسائل کے انبار ہیں۔
اندھی تقلید اور دنیا دکھاوے کے لیے مجھے بھی اس دوڑ میں شریک ہونا پڑا' پر بہت تھک گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ میرے بال وقت سے پہلے سفید ہو گئے ہیں۔ قبل از وقت میرے کاندھے جھکے جا رہے ہیں لیکن انہیں کیا پتہ غریب کے لیے ایک بیٹی کا بوجھ بھی پہاڑ کی طرح ہوتا ہے اور اس کا احساس مجھے اسے بیاہتے ہوۓ بخوبی ہو چلا تھا۔ ہم جیسوں کی سفید پوشی کا بھرم رکھنے والے لوگ شاید ہی پیدا ہوۓ ہوں' پھر میری یہ معصوم بچی کرن جس نے شاید ہی زندگی میں مجھ سے کوئی فرمائش کی ہو۔ اسے بے دلی سے رخصت کرتے ہوۓ دل کٹتا تھا۔ میٹرک کے بعد حالات کو دیکھتے اور سمجھتے ہوۓ اس نے خود تعلیم سے انکار کر دیا تھا۔ میں نے اپنے شوق سے اسے انٹر کرایا تھا' ایسے میں اس کا ایک بہت اچھی جگہ سے رشتہ بھی آ گیا تو میں گومگو کی کیفیت میں پڑ گیا۔ بمشکل دال دلیہ چلا کر پاس بچتا ہی کیا تھا جو میں ہامی بھرتا' لیکن زہرا نے جھٹ ہامی بھر لی جیسے چاروں طرف سے ہن برس رہا ہو۔ اس عجیب عورت کی منطق مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی تھی۔ جو اپنے آگے میری کبھی نہیں چلنے دیتی تھی میں اس کی ضد کے آگے ہمیشہ بے بس ہو جایا کرتا تھا۔
" ہاں تو کبھی نہ کبھی شادی کرنی ہی ہے نا تو اس وقت کہاں سے دولت برسے گی' حالات تو ایسے ہی رہیں گے۔ بچی کی یہ عمر گئی تو رشتہ بھی اچھا نہیں ملے گا۔ خدا کا شکر ہے پہلا رشتہ ہے اور وہ بھی اتنا اچھا۔" اس کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں ' اس کی بات سے انکار نہیں تھا۔ بس مجھے اس کی ہر بات سے چڑ محسوس ہوتی' یہ وہ عورت تھی جو شوہروں کی مجبوری کو خاطر میں نہ لا کر اس کے اعصاب پر حکمرانی کرنا جانتی تھی' کبھی میری مجبوری کا احساس نہ کیا کہ میری جیب میں پھوٹی کوڑی بھی ہے کہ نہیں' جوں ہی مہینے کے پیسے مجھے ملتے وہ موٹر سائیکل کا خرچہ ہاتھ میں دے کر سب کے سب اپنے قبضے میں کر لیتی۔ شروع میں احتجاج کیا تو اس عورت کی بھوک ہڑتال اور پھولے ہوۓ منہ نے میرے اعصاب اور کشیدہ کر دیے' اس روز گھر میں چولہا بھی نہ جلا' گویا اتنا سخت معرکہ تھا اس کے خیال میں گھر میں چلاتی ہوں تو خرچہ بھی میں اپنے ہاتھ میں ہی رکھوں گی۔ آخر اسے اپنی جمع پونجی کا حقدار بنانا ہی پڑا جس سے وہ پورا مہنیہ گھر چلاتی' یہ نہیں کہ وہ اپنے اوپر خرچ کرتی' بیش بہا شاپنگ کرتی' یا گھومنے پھرنے اور