سات سال! ان سات سالوں میں ہی جلن اور حسد سے بھرپورشروع کے وہ تین سال بھی شامل ہیں ' جب اکثر رات گئے مجھے خیال آتا کہ اس وقت شوہر صاحب کسی اور عورت کے ساتھ تنہائی میں' اکیلے ہوں گے۔ میں بستر پر لیٹے لیٹے جیسے اٹھ کر بیٹھ جاتی۔ جسم اکڑ جاتا' سانس بے قابو ہونے لگتی' کہتے ہیں کہ آزماۓ ہوۓ کو آزمانا بے کار ہے۔ جو ایک بار مایوس کر دے وہ ہربار مایوسی ہی دیتا ہے۔ مگر شاید ایک ہارا ہوا انسان جب امید باندھنے پر آتا ہے تو ہزار بار مایوس کر دینے والے پر بھی اعتبار کر لیتا ہے۔
میں کہیں دل میں تین سال گزرنے کا انتظار کر رہی تھی۔ خود کو بہلا رہی تھی کہ تین سال بعد ' وہ آۓ گا تو اس سے جی بھر کر بدلہ لوں گی۔ باتیں سناؤں گی' خالہ جان کو بھی اکساؤں گی۔ تین سال گزرے اور پھر چوتھا سال بھی گزر گیا' میں اس قدر شرمندہ تھی کہ کس طرح اس کو فون کر کے پوچھوں کہ تم نے تو تین سال کہے تھے یہ تو چوتھا سال بھی گزر گیا ہے۔ خالہ جان مجھے پوچھنے پر اکساتے ہوۓ' شرماتی تھیں ' ہم اس کی طرف سے ایسی کسی بات کے کرنے کے منتظر رہتے مگر وہ حسب معمول پیسے بھیجنے اور اپنی خیریت کا بتا کر فون بند کر دیتا۔
اور پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ میں کیا چاہتی ہوں۔ اس نے کچھ حاصل کرنے کے لیے مجھے نا مراد کیا اور اب مجھے حاصل کرنے کے لیے کسی اور کو نا مراد کر دے۔ مجھے یہ منظور نہیں ہوا' میں نے پہلی بار خالہ جان سے اس پر منہ در منہ بات کی اور دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ اگر وہ اپنی زندگی سے خوش ہے اور اب اگر اسے اپنی دوسری بیوی پسند ہے۔ وہ اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے تو میں اس کو مجبور نہیں کروں گی۔ اس نے آپ کے ساتھ ' میرے ساتھ نہیں' تو کسی کے ساتھ تو وفا کی۔ بس اس بات کو بھول جانا چاہیے کہ وہ واپس آۓ گا۔ مجھے اپنے پاس بلاۓ گا ' خالہ جان کی حالت ایسی نہیں رہی تھی کہ وہ سوال جواب کرتیں' بلکہ وہ بالکل خاموش ہو گئی تھیں، ایسے جیسے انہوں نے ہر بات پر حامی بھرنے لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئیں۔ میں بھی وقت پورا کرنے لگی۔ ویسے بھی اب میں عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکی تھی جہاں پر لوگوں کو معاف کر دینے کا جذبہ میری پوری شخصیت پر غالب آ چکا تھا۔ ادھر ادھر کی باتوں میں لوگوں کی کہی ان کہی کو سمجھ لینے کا شعور مجھے صبر دلا دیا کرتا تھا۔
گھر میں داخل ہوئی تو بڑے دنوں بعد باورچی خانے میں خالہ جان کو مصروف پایا۔ انہوں نے بہت محبت سے مجھے تیار ہونے کی ہدایت کی۔ میں دل ہی دل میں ایک بار پھر دہل گئی۔ وہ کیا بتانے۔۔۔ کیا کہنے اور کیا کرنے سات سال کے بعد اچانک آ رہا ہے؟
اس نے پھر وہی کیا۔ جہاز میں بیٹھنے کو تھا تو فون کر کے ہمیں حیران کر دیا' دوسرے دن آمد کا وقت بتا کر وہ عجلت میں فون بند کر چکا تھا۔۔ اس نے سوچنے ' سمجھنے' سنبھلنے کا ایک بار پھر موقع نہیں دیا تھا ' میں تیار ہو کر باہر آئی تو خالہ جان نے مسکراتے ہوۓ بتایا کہ رات کے کھانے پر انہوں نے جبران کو بھی دعوت دے دی ہے۔ میرے تصور میں خوابیدہ آنکھیں ڈول گئیں۔ کچھ لمحوں کے لیے سب بہت اچھا سا لگا' کوئی پردیسی سالوں بعد لوٹ رہا ہو تو دل میں کتنی خوش فہمیاں سی چٹک جاتی ہیں' مگر پھر میں فورا ہی گھبرا گئی۔
" خالہ جان آج ہی کیوں ۔۔۔ ذرا ان کو ایک دو دن گھر کے ماحول میں سیٹ ہونے دیتیں پھر بلا لیتیں جبران کو۔۔۔۔ ویسے بھی پتا نہیں وہ۔۔۔"