پہلے ہارٹ اٹیک کے بعد امی نے خالہ جان کے دلاسے پر خود پر کافی قابو پا لیا تھا اور خالہ جان کے لاۓ گئے رشتوں پر دھیان دیتی تھیں۔ مگر دوسرے ہارٹ اٹیک نے ان کو مایوس کر دیا اور آخر کار امی جان مجھے خالہ جان کو سونپ کر ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔ خالہ جان نے مجھے دلاسا دیا' ہمارا گھر بیچ کر میرے نام سے پیسے جمع کروا کر وہ مجھے اپنے ساتھ رکھنے پر راضی ہو چکی تھیں۔ اور میں خود بھی اب اس گھر میں اکیلے رہنے سے بہت افسردہ رہنے لگی تھی۔ خالہ جان نے امی جان کے بعد میرا خیال رکھا' اندگی کی طرف لائیں' مجھے خوشی دینے کے لیےاپنے بیٹے کو اس رشتے کے لیے واپس بلایا' ان کے احسانات میں چاہوں بھی تو کبھی نہیں اتار سکتی' پھر ان کے ساتھ دوستی' محبت اور جو انسیت تھی اس کو چھوڑ جانے کے خیال سے ہی دل بیٹھا جاتا تھا۔ خالہ جان کو اکیلے تنہا چھوڑ جانے کا خوف تو۔۔۔ تھوڑا تھوڑا خالہ جان پر غصہ بھی تھا کہ وہ بیٹے کے ساتھ جانے سے یکسر منع کر چکی تھیں کہ ان کو منانے کے لیے کوئی دلیل ہی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ ان کو اکیلے رہنا منظور تھا۔ اپنی زمین کو چھوڑنا گوارا نہیں تھا۔
میں زیادہ حیران اس بات پر تھی کہ چلو پہلے تو ہمارا ساتھ تھا' اب شوہر صاحب اپنی بوڑھی ماں کو اکیلے اللہ کے سہارے چھوڑ کر کیسے جانے پر بضد ہیں ' یہ تو اپنی ماں' اپنی زمین سے بے وفائی ہے' جس نے پال پوس کر بڑا کیا۔ جس نے برے وقت میں ساتھ کیا ' جس نے جلتی پیشانی پر ہاتھ رکھا' اسے چھوڑ کر چل دیا جاۓ۔ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا' شوہر صاحب چند دنوں میں ہی واپس سدھار گئے ۔ بے چینی تھی کہ سکون نہ لینے دیتی' میں ان کا فون سنتی گھبراتی' کانپتی جاتی۔
میرے مالک۔۔۔! کہیں آج وہ یہ نہ کہہ دیں کہ کاغذات مکمل کر لیے ہیں۔ بھیج رہا ہوں' ویزے کے لیے اپلائی کر دو۔"
مگر یہی بات ان سات سالوں میں شوہر صاحب نے کبھی نہیں کہی' کہا بھی تو کیا۔۔۔؟ خالہ جان تو شدید غصہ تھیں' شوہر صاحب کو عاق تک کرنے کی دھمکی دے چکی تھیں مگر وہ بھی دھن کے پکے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کو برطانیہ کی قومیت حاصل کرنے کے لیے ایک برطانوی خاتون سے شادی کرنی ہو گی اور تین سال بعد جب ان کو شہریت مل جاۓ گی تو وہ برطانوی شہری بن کر اس خاتون سے آزادی حاصل کر لیں گے۔ خالہ جان کا میرا ساتھ دینے کے باوجود مجھے اپنے حواس سن محسوس ہو رہے تھے۔ اگر کسی کو ہر وقت کھو دینے کا خوف غالب رہے اور پھر اچانک کوئی اور ہی آپ سے کھو جاۓ تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اب اس لمحے ' اس ہمیشہ کے متوقع خوف زدہ لمحے میں کیا کیا جاۓ؟
مگر پھر چند ایک دنوں میں شوہر صاحب نے پوسٹ کے ذریعے اپنی برطانوی خاتون کے ساتھ کورٹ میں شادی کی تصویریں بھجوائیں تو جیسے مجھے سکتے سے کسی نے جگا دیا۔ میں نے چند لمحے تو تصاویر کو خاموشی سے دیکھا اور پھر قریب ہی بیٹھی دکھ سے کمزور ہوتی خالہ جان کے کندھے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کے سوا ہم دونوں کر بھی کیا سکتے تھے۔ چند دن کی ناراضی میں شوہر صاحب کے فون نہ سنے' ان سے رابظہ نہ کیا' حال احوال نہ لیا اور پھر۔۔۔ جیسے مجھے عادت ہو گئی۔ میں اپنی تنہائی پر راضی ہو گئی اور مگن سی رہنے لگی' کچھ دنوں بعد ہی میں نے اسکول میں واپس نوکری کر لی۔ خالہ جان اور میں جیسے خودبخود ہی ایک دوسرے کو سمجھنے لگے تھے۔ ہمیں لفظوں کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ بات چیت کرتے بھی تو موضوع کیا اٹھاتے۔