SIZE
3 / 11

ان کی ادبی مصروفیات محض اچھی ادبی کتب' ادبی جرائدورسائل کے مطالعہ ' ادیبوں کے بارے میں معلومات تک ہی محدود تھیں۔ یہ معلومات اتنی اپ ٹو ڈیٹ رہتیں کہ نفرہ انہیں ادیبوں کی ڈکشنری کہتی ۔ ہاں کبھی کبھار ڈائری کے صفحات پر اپنے دل کی باتیں ضرور رقم کیا کرتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں اسکول اور میڈیکل کالج کے وہ محلے جن میں ان کی تحریریں شائع ہوئی تھیں ' ابھی تک ان کی تعلیمی اسناد کے ساتھ محفوظ تھے۔

البتہ نفرہ کا ادبی شوق مطالعے سے اوپر تھا۔ اس کی چھوٹی موٹی تحریریں ' خط' تبصرے تو ہفتہ وار میگزین میں تواتر سے شائع ہوتے ہی تھے۔ انعامی مقابلہ جات میں بھی اس کی تحریروں کو اول' دوم' سوم انعام مل ہی جاتا تھا۔ نفرہ ماموں میاں کی تہ دل سے ممنون تھی۔ یہ سب ان کی توجہ اور حوصلہ افزائی کی بنا پر ہی ممکن ہوا تھا۔ مارکیٹ میں کوئی نئی کتاب چھپ کر آتی یا کہیں اشتہار پڑھتے تو کتاب چوبیس گھنٹے کے اندر ماموں کے ہاتھوں میں ہوتی۔ بس۔۔۔۔ پھر وہ کتاب ہوتی اور ماموں بھانجی کی ڈسکشن ' لمبی گفتگو۔۔۔ فقرے خط کشید کیے جاتے ' ان کے نئے نئے معنی ڈھونڈے جاتے۔ یہ ان دونوں کے ادبی ذوق اور روحانی تسکین کے لیے بہت عمدہ ٹانک ہوتا۔ چار دن ماموں میاں کے ہاں رہ کر واپس حافظ آباد پہنچنے والی نفرہ' ہفتوں ایسی ملاقات اور گفتگو کے حصار میں رہتی۔

شروع شروع میں ان دونوں کی گفتگو ممانی کے کچھ پلے نہ پڑتی۔ پھر وہ اس کی عادی ہوتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ ایک وقت وہ بھی آیا وہ نہ صرف ان کی لمبی لمبی ادبی گفتگو میں حصہ لیتی تھیں ' بلکہ موسموں کی مناسبت سے ڈرائی فروٹ ' چائے کافی' کیوبز کی شکل میں کاٹے ہوئے ٹھنڈے یخ خربوزے کے علاوہ اسی قسم کے لوازمات پیش کرتیں۔

نفرہ کی معصومیت اور سادہ حسن نے بہت جلد ان کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ اب ثوبیہ کی طرح وہ اس پر بھی پورا دھیان دیتیں۔ کبھی کبابوں کا مسالا بنوا رہی ہیں' کبھی قمیص کی ترپائی سکھا رہی ہیں۔ فرنچ فرائز اور فرنچ ٹوسٹ پہلی مرتبہ کھائے بھی ماموں کے گھر میں تھے اور بنائے بھی ان ہی کے گھر میں تھے۔

اب ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن تھا کہ نفرہ ماموں میاں کے ہاں آئے اور ماموں میاں اسے لیے بغیر پہاڑی علاقوں پر چلے جائیں۔ جب ماموں نے ساتھ چلنے پر بے حد اصرار کیا تو نفرہ نے ان سے سوال کیا۔

" ماموں میاں اگر میں اتفاق سے لاہور نہ آتی تو آپ کو میرے بغیر ہی جانا تھا نا؟"

ماموں میاں نے اسے دیکھا اور جواب دیا۔ " پگلی! ہم تمہیں حافظ آباد سے لے لیتے۔"

اب پگلی کے ہونٹوں پر بارہ من وزنی قفل لگ گیا' آنکھیں اشک بار ہو گئیں ۔ ماموں میاں کی سات بھانجیاں ( تین بہنوں سے) اور بھی تھیں' اب یہ نفرہ کی خوش نصیبی نہیں تو کیا تھی کہ ماموں کی شفقت اور محبت کی بلا شرکت غیرے وہ حق دار تھی۔

پہاڑی علاقوں میں گزرے سات دن ' اس کی زندگی کے یادگار دن تھے۔ جس پہاڑ کو دیکھا' جس پتھر یا چٹان پر قدم رکھا' اس کی داستان بنا ڈالی۔ " دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو۔" پر تو دونوں ماموں ' بھانجی نے پورا دن لگایا۔ پہاڑی علاقوں پر ہی کیا موقوف ' چھانگا مانگا کے جنگلات ہوں یا میانوالی کے بنجر پہاڑ' جنوبی پنجاب کے میدان یا کراچی کا ساحل سمندر۔۔۔۔ قدرت کا ایک ایک معجزہ جہاں اسے قدرت سے قریب کرتا' وہیں ماموں میاں کی محبت کا سمندردل میں ٹھاٹھیں مارنے لگتا۔

آٹھویں دن جب وہ لاہور کی طرف روانہ ہوئے تو سارا راستہ اس نے ماموں میاں کو منانے کی کوشش کی کہ مجھے حافظ آباد ڈراپ کرتے جائیں ۔ اپیا ناراض ہوں گی۔ ابا ڈانٹیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ ماموں نے اسے حافظ آباد سے بائی پاس لاہور لے جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ اسی پر کاربند رہے اور وہ منہ بسورتی واپس لاہور پہنچ گئی۔ لاہور میں خوب آرام کر کے ' اپنی منوں ٹنوں وزنی تھکن اتار کہ وہ حافظ آباد پہنچی تو گھر سے نکلے پورے چودہ دن ہو چکے تھے۔

گھر میں پہنچ کر وہی چال بے ڈھنگی ' جو پہلے تھی' چلنا تھی۔ صبح سویرے اٹھنا' آٹا گوندھنا ' ناشتے کے برتن دھونا' ان کے قصبہ میں گرلز کالج نہیں تھا۔ لہذا پرائیوٹ بی اے کے پیپرز کی تیاری۔۔۔۔ اخبار کا ابا کو شوق نہ تھا۔ ٹی وی پر اماں نے صرف خبروں والے چینل کی اجازت دی تھی۔ کام تو سارے دل جمعی سے ہی کرتی' مگر بولائی بولائی پھرتی۔۔۔ کانوں میں ماموں ممانی کے فقروں کی ٹیپ ہی چلتی رہتی۔