" ممانی جان! وہاں تو گرم کپڑوں ' بند جوتوں ' جاگرز وغیرہ کی ضرورت ہو گی' میں تو صرف یہ سوٹ لائی ہوں جو پہن رکھا ہے۔" نفرہ نے نہ جانے کی اپنے تئیں معقول وجہ پیش کی۔
" یہ تو محض بہانہ ہے' میرا تمہارا ایک ہی سائز ہے' جوتوں کا بھی اور کپڑوں کا بھی۔۔۔۔ ہاں نہ جانا چاہو تو الگ بات ہے۔" ماموں میاں کی اکلوتی بیٹی ثوبیہ نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔ ثوبیہ عمر میں تو نفرہ سے دو سال تین مہینے بڑی تھی' مگر نصرت مامی کی طرح اس کا قد بھی نسبتا کم تھا ۔ نفرہ کے برابر ۔۔۔ برابر
" نہیں ثوبیہ باجی! بہانہ نہیں اصل میں۔۔۔"
کھی کھی کھی۔۔۔ قل قل قل کر کے چاروں طرف سے قہقہے ابل پڑے۔۔۔ نفرہ حیرانی سے آنکھیں پھاڑے سب کو دیکھ رہی تھی۔
" بری بات' میری نجو رانی کو کوئی تنگ نہ کرے۔" ماموں میاں نے سب کو سرزنش کی۔
" بھئی نفرہ! بات یہ ہے کہ آج صبح ناشتا کے بعد ہم سب اپنی بحث اور ڈسکشن کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ جب کوئی شخص اپنی گفتگو میں ۔۔۔۔ اگر' مگر' چونکہ' چنانچہ یا " اصل" میں کا لفظ شروع ہی میں استعمال کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص کہیں نہ کہیں بات چھپا رہا ہے۔"
" اوہ ۔۔۔ اچھا! نفرہ کھسیانی ہنسی ہنسنے لگی ' پھر بولی۔ " لیکن میری بات سو فیصد درست ہے' پھر بھی۔۔۔۔ اصل میں سے ہی شروع ہو گی کہ پچھلی دفعہ میں دو دن کے لیے لاہور آئی اور بارہ دن کے بعد حافظ اباد پہنچی تو گھر والوں نے مجھے دیکھتے ہی پتا ہے کیا کہا۔"
اللہ جانے کہاں سے ساون بھادوں کی بارش اس کی موٹی موٹی آنکھوں سے برسنے لگی۔ ٹپ ٹپ ٹپ آنسواس کے رخساروں پر گرے۔ اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے اس نے کہا۔ " ممانی جان! آپا اور رضی بھائی مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے۔ " اے لڑکی! کیوں گھسی جا رہی ہو ہمارے گھر میں ۔۔۔ کون ہو تم؟" ابا کہنے لگے۔ " دیکھی دیکھی سی شکل ہے' شاید لاہور میں کہیں دیکھا ہو۔"
سارے پھر ـــــــ کورس کی شکل میں ہنسے۔
بات نفرہ کی سو فیصد درست تھی۔ وہ جب بھی لاہور آئی' بے چاری بری طرح سے ہی پھنسی۔۔۔ کبھی ممانی جان کا اچانک پتے کا آپریشن ہوا' عالیہ کے ایف ایس سی کے پیپرز کے بعد انٹری ٹیسٹ چل رہے تھےتو تیمار داری کے لیے اسے رکنا پڑا۔ کبھی مغیث' منیب کے سالانہ امتحانات ہیں' ممانی جان کی سگی خالہ کا اچانک انتقال ہو گیا۔ اب ان دونوں کو کون قابو کر کے بٹھائے اور امتحانات کی تیاری کروائے ۔ ممانی جان تو تین چار دن کے لیے رحیم یار خان روانہ ہو گئیں اور اتفاقا وہاں پر موجود نفرہ کو ہی رکنا پڑا۔
پچھلا داغ دار ریکارڈ اس کے سامنے تھا۔ بھلا وہ کیسے مان جاتی لاہور میں قیام بڑھانے پر۔۔۔۔ رضی بھائی اور اپیا نے کلاس لے کر اس کے ہی کان کھینچنا تھے۔ اسے کشمکش میں دیکھ کر نصرت ممانی نے کہا۔
" تم ٹینشن نہ لو' آپا سے اور نخبہ سے میں خود ہی بات کر لوں گی۔ کچھ نہیں ' کہیں گی وہ' تمہیں تو ویسے ہی پہاڑی علاقوں سے عشق ہے' اچھی بات ہے' چھٹیاں بھی ہیں' ہمارے ساتھ ہی چلو۔"
نفرہ خاموش رہی اور " خاموشی نیم رضا " کے مقولے کو سامنے رکھ کر سب نے خوشی سے نعرہ لگایا اور اسے مبارک باد دی۔
ماموں میاں ہوں یا نفرہ بھانجی' دونوں کی عادات و اظوار ایک جیسے تھے۔ دونوں کی ایک دوسرے میں جان تھی۔ ماموں نے بھی بھانجی پر محبتوں کے خزانے نچھاور کیے اور اتنے کیے کہ مغیث' منیب یہ کہتے پائے جاتے کہ ' بابا جان ہم سے زیادہ ثوبیہ آپی اور نفرہ آپی سے پیار کرتے ہیں۔" نفرہ کی محبتوں کا تو انداز ہی جدا تھا۔ اس لیے گھر میں تھوڑا سا اضافی کام ہوتا' لاہور سے حافظ آباد ایک فون کال پر نفرہ دوڑی چلی آتی۔ اب تو خیر سے یہ بھی مشہور ہو چکا تھا کہ ماموں میاں کے گھر میں کسی کو چھینک بھی آ جائے نفرہ دوڑی چلی جاتی ہے۔
ماموں ' بھانجی میں یہ محبت شروع سے ہی تھی۔ دونوں کا ذوق ایک جیسا تھا۔ دونوں کی پسند نا پسند ایک جیسی تھی۔ صورت سے بھی ثوبیہ سے زیادہ نفرہ ان کی بیٹی لگتی۔ دونوں ادب کے رسیا تھے۔ ماموں ملازمت اور ڈاکٹری مصروفیات کی وجہ سے ادب اور ادبی شوق کو وقت نہ دے پاتے۔