" ابا نے کہا ہے کہ وہ ایسے لڑکے سے میری شادی کریں گے جو یا تو ملک سے باہر ہو یا سرکاری نوکری کرتا ہو پکی والی۔"
میرے پاس تو دونوں ہی سہولیات کا فقدان تھا۔
تیسری اور سب سے خطرناک ولن کے روپ میں سامنے آئیں میری ماں۔۔۔۔
" کیا۔۔۔۔۔ وہ اصغر کی لڑکی؟"
" جی اماں! آپ کو یقین کیوں نہیں آتا۔"
" یقین تو آ رہا ہے پر تیری بات پر نہیں۔"
" تو پھر؟" میں نے ہونقوں کی طرح ان کی شکل دیکھی۔
" تیرا دماغ چلنے پر ۔"
میں تپ گیا۔
" ایک بات تو بتا۔ پورے محلے اور خاندان بھر کی ساری چھوکریاں چھوڑ کر تجھے شگو نگوڑی ہی ملی تھی؟"
" شگو۔۔۔۔ نگوڑی۔۔۔۔؟" اماں کے رکھے نک نیم اور ہی ہوتے تھے۔ مزاج پر بھاری اور طبیعت پر گراں۔
" تو بہت بھولا ہے میرے بچے۔۔۔۔"
اماں کے دل میں جانے کیا خیال آیا' ہاتھ میں پڑا سروتا اور چھالیہ اپنے قدیم جاپانی پان دان میں ڈال کر کھٹاک سے اس کا بھاری ڈھکن گرایا۔ پھر اسے ایک طرف کر کے میری طرف جھک کر پیار سے کہا۔
" اچھا تو مجھے چلتر بننے کا ہی کوئی طریقہ بتا دیں۔" میں تپ کر بولا۔
" زرا سن تو!" اماں نے میری بات کو مخول سمجھ کر کچھ دیر اپنے پوپلے منہ سے ہنسی اڑائی۔
" یہ جو اپنی شگفتہ ہے ناں۔ ایک نمبر کی چلتی پرزہ ہے۔"
اپنی ہونے والی بہو کے بارے میں اماں کے خیالات مجھے زرا نہ بھاۓ۔
" اپ کو کیسے پتا اماں! کسی کی بیٹی کے بارے میں۔۔۔۔" میری بات ادھوری رہ گئی۔
" آۓ ہٹ یہاں سے۔ کچھ پتا بھی ہے تجھے۔ یہ اپنے پڑوس والے امجد سے چکر چل رہا ہےاس کا۔"
" ہیں؟" میں ہکا بکا ہو گیا۔
" اور نہیں تو کیا۔ وہ سلمی بتا رہی تھی۔ بھری دوپہر میں اکیلے اس چھڑے چھانٹ کی چھت پر کودتے دیکھا اس نے اپنی آنکھوں سے ۔ ہاۓ میرے اللہ توبہ۔۔۔۔۔"
اماں توبہ کر رہی تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ سلمی کی گچی مروڑوں یا پھر شگفتہ کو ہی جا کر دو تھپڑ لگا آؤں۔ جسے میں نے ہزار بار منع کیا تھا امجد کی چھت پھلانگنے سے جب میں خود ہی اس تک چلا جاتا تھا تو اس کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ۔۔۔۔۔
" اف!!!" میرا بس نہ چلا تو اپنے ہی بال نوچ ڈالے ۔ بے ضرر سی دو چار ملاقاتیں کیا رنگ دکھا رہی تھیں۔ جب بھی میں شگفتہ سے ملنے چھت پر جاتا۔ امجد خبیث کسی بوتل کے جن کی طرح آ دھمکتا اور پھر ان ضدی اور ہٹ دھرم بچون کی طرح جن کی جتنی بھی تربیت کی جاۓ۔ انہیں ہمیشہ بڑوں کے درمیان بیٹھ کر ہی کھیلنا ہوتا ہے' میرے اور شگفتہ کے آس پاس ہی ٹہلتا رہتا۔
" اس بے شرم کو دیکھو ۔ کباب میں ہڈی بنا گھوم رہا ہے اور زرا تمیز نہیں۔" کبھی کبھی بے حد چڑ کر میں کہنے پر مجبور ہو جاتا۔
" چھوڑو ناں ہمارا کیا لیتا ہے۔ تم اپنی سناؤ۔ میں نے بتایا تھا کہ انار کلی میں سیل لگی ہے۔"
" یار! میں کیسے جا سکتا ہوں۔ میں تو لنچ ٹائم میں بمشکل بھاگم بھاگ تم سے ملنے گھر آتا ہوں۔"
" تو پھر۔۔۔۔۔۔۔" شگفتہ کا چہرا اتر جاتا۔