چھوٹے بچوں کی مائیں ' بچوں کو وہیں آڑا ترچھا سلا دیتیں اور جو تھورے سمجھدار ہوتے وہ اس وقت تک کھیلتے رہتے جب تک تھکن اور نیند سے بے دم نہ ہو جاتے یا بالاخر لائٹ ہی آ جاتی۔
اس وقت تو چھوٹے بڑے سارے بچے لڑکا ' لڑکی کی تمیز کے بغیر مل جل کر کھیلا کرتے۔ ان ہی بچپن سے لڑکپن کی طرف سفر کرتے دنوں میں شگفتہ کے گھر والے اپنا گھر کراۓ پر دے کر کسی بہتر علاقے اور قدرے بڑے گھر کراۓ پر چلے گئے۔ شگفتہ کے ابا کا اچانک ہی ملک سے باہر جانے کا چانس بن گیا اور ان کے دن پھر گئے۔ بعد میں انہوں نے وہ گھر بھی خرید لیا۔ اب قریبا دو سال پہلے وہ لوگ پرانے گھر میں شفٹ ہو گئے تھے۔ کیونکہ اس کے ابا واپس پاکستان آ گئے تھے۔ اب ان کی مستقل کمائی کا ذریعہ وہی گھر اور ایک آدھ دکان تھی جو انہوں نے باہر رہ کر بنا لی تھی۔
شگفتہ اور اس کی بڑی بہن ' بس دو ہی بچے تھے ان کے۔ بڑی بہن کی شادی کراچی سے باہر کہیں ہوئی تھی۔
جب وہ لوگ دوبارہ ہمارے محلے میں شفٹ ہوۓ تو گو کہ پہلے والا ملنا ملانا نہیں تھا مگر چونکہ وہ لوگ کود یہاں آ کر بہت خوش تھے ۔ اس لیے ماضی میں تقریبا وہ سارے گھر جن سے ان کے تعلقات تھے ۔ ان سے ملنے ملانے گئے۔ ان ہی گھروں میں سے ایک گھر ہمارا بھی تھا۔
جس دن میں نے اسے پہلی بار دیکھا۔ وہ اپنی والدہ کے ساتھ ہمارے ڈرائنگ روم میں تشریف فرما تھی۔ میں صحیح معنوں میں اس کے الہڑ انداز اور گوری رنگت پر سے نطر ہٹانا بھول گیا۔
اس نے ایسا رنگ روپ نکالا تھا اور ایسی اٹھان پائی تھی کہ اچھے اچھوں کی توبہ میں شکنیں پڑ جاتیں۔ میں نے پہلی نگاہ اس پر ڈالتے ہی اپنا دل تو ہارا مگر اس کا دل بھی جیت لیا اور ہماری لو اسٹوری کمیانی سے چل پڑی۔
مگر اس کامیابی میں سب سے پہلا ولن وہی درمیان والا گھر بنا ' جو بد قسمتی سے امجد کا تھا۔
امجد کے ابا ٹریول ایجنٹ کا کام کرتے تھے اور وہ یہی کام یہاں کراچی میں کرتا تھا۔ لاہور میں اس کا گھرانہ کھاتے پیتے لوگوں میں شمار ہوتا تھا ۔ کراچی میں ہمارے پڑوس والا گھر بھی اس کا اپنا تھا۔
اسی لیے جون کی ایک بے حد تپتی ہوئی دوپہر میں جب پورا محلہ اپنے ٹھنڈے کمروں میں پنکھوں کے نیچے پڑا اونگھ رہا تھا ۔ اس کمبخت نے ہمیں اپنی ہی چھت کے ٹین والے چھجے تلے بچھے جھلنگا پلنگ پر رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ۔
بس پھر کیا تھا اس نے تو بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔
شگفتہ کا تو پتا نہیں۔ مگر میں اس صورت حال سے میں کافی تنگ آ چکا تھا ۔
اللہ جانے شگفتہ کے ساتھ اس کا رویہ کیسا تھا ۔ اس کبھی کھل کر مجھ سے شکاہت تو نہ کی تھی مگر میں بری طرح پھنس چکا تھا ۔ وقتا فوقتا وہ مجھ سے بٹورتا ہی رہتا تھا۔
اور یہ کھیل اس وقت تک چلنا تھا جب تک ہماری پریم کہانی کو کوئی خوب صورت انجام کسی اعلانیہ حتمی رشتے کی صورت نہ مل جاتا۔
مگر۔۔۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ بجاۓ بہتری آنے کے صورت حال اور گھمبیر اور کشیدہ ہوتی چلی گئی۔ ہماری سیدھی سادی محبت کہنی میں یکایک ہی تین ولن ابھر آۓ۔
ایک تو امجد تھا۔ جو ہر وقت ہماری ملن کی گھڑیوں کی تاک میں رہتا۔ اور عین وقت پر انٹری دے کر ہر چیز کا بیڑا غرق کر دیتا۔
دوسرے نکلے شگفتہ کے ابا۔۔۔۔ جنہوں نے اچانک ہی شگفتہ کی جلد از جلد شادی کا شوشا چھوڑ دیا۔
" سیدھا سیدھا رات کو سویا تیرا ابا۔ صبح اٹھ کر تیری شادی کی فکر طاری ہو گئی۔" میں نے سنتے ہی شگفتہ سے کہا۔