" کوئی پرابلم ہے تو مجھے بتاؤ بیٹا' اپنے پاپا کو تو سب کچھ بتا دینا چاہیے نا' کیونکہ وہ اپ سے بہت بڑے ہوتے ہیں اور آپ سے زیادہ جانتے ہیں تو ایسا تو ہو سکتا ہے نا کہ آپ کے لیے ایک چیز بہت بڑا مسئلہ ہی نہ ہو اور اگر وہ مسئلہ ہو بھی تو ان کے پاس اس کا پراپر سلوشن موجود ہو۔"
" نہیں پاپا' کوئی پرابلم نہیں ہے۔" ساتھ ہی اس نے کاپی کے اوپر ہاتھ رکھ کر اسے چھپانا چاہا' ثوبان نے ہاتھ بڑھا کر وہ کاپی کھینچ لی تھی۔
" وہ پاپا۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ۔۔۔۔" وہ روکنا چاہتا تھا مگر ثوبان کے سامنے وہی صفحہ کھلا ہوا تھا۔
" مجھے شمائلہ آنٹی بالکل اچھی نہیں لگتیں۔ میں ان کے گھر نہیں جانا چاہتا' وہ گندی باتیں کرتی ہیں' وہ کہتی ہیں' میں نے مما' پاپا کو کچھ بتایا تو وہ مما کو میرے بارے میں غلط بتا دیں گی' مجھے در لگتا ہے۔" آگے شاید ثوبان کے آنے پر ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ ثوبان سناٹے میں رہ گیا تھا، اس کی سوچنے ' سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو گئی تھیں۔
" پاپا' میرا کوئی قصور نہیں' میں نے کچھ نہیں کیا' وہ غلط۔۔۔۔" ایمان کی حد درجہ گھبرائی آواز نے اس کے سناٹے کو توڑا تھا۔ اس نے بے اختیاراسے ساتھ لگا لیا تھا۔
" آپ اتنا کیوں گھبرا رہے ہو بیٹا ' آپ کیا سمجھتے ہو ' آپ کے متعلق کوئی کچھ بھی بتاۓ گا ' ہم مان لیں گے' میں یا آپ کی مما' آپ کے متعلق کسی بھی غلط بات کو فورا مان لیں گے ۔ آپ کو ایسا لگا بھی کیسے' ہم اپنی اولاد کے خلاف کوئی بات سن بھی نہیں سکتے کجا اعتبار کرنا۔ مجھے تو بلکہ اس بات پر آپ سے ناراض ہو جانا چاہیے کہ آپ نے خود یہ بات ہمیں کیوں نہیں بتائی؟"
وہ ہلکے پھلکے انداز میں اسے ریلیکس کرنا چاہ رہا تھا ۔ ورنہ اس کے اپنے دماغ میں تو آندھیاں چل رہی تھیں پھر اس نے بہلا پھسلا کر اس سے بہت سی باتیں اگلوائی تھیں۔ وہ بھی باپ سے شئیر کر کے ہلکا پھلکا ہو گیا تھا' وہ اسے ڈھیروں دلاسے دے کر' پر سکون ہو جانے کی ہدایت کر کے اپنے بیڈ روم میں آ گیا۔ اسی پل سمیرا چاۓ لیے اندر داخل ہوئی تھی۔ ثوبان کو اس وقت چاۓ کی واقعی بہت طلب محسوس ہو رہی تھی ' سو گرم کپ منہ سے لگا لیا تھا۔
" کیا ہوا' ایمان نے کچھ بتایا آپ کو؟"
وہ جواب دیے بغیر چاۓ پیتا رہا' سمیرا نے حیرت سے اسے دیکھا۔
" کیا ہوا ثوبان' کیا کوئی سیریس بات ہے؟"
" بہت ہی زیادہ سیریس' سن پاؤ گی؟"
" کیا مطلب ؟" اسے تو کرنٹ لگا تھا۔
ثوبان نے مختصرا اسے جو کچھ بتایا تھا ' اسے سن کر وہ سن کی سن بیٹھی رہی تھی ۔
" ہر وقت بیٹیوں کی فکر میں ہلکان رہنے کی بجاۓ تھوڑی سی فکر بیٹے کی بھی کر لی ہوتی تو نوبت یہاں تک نہ آتی' وہ عورت نجانے اسے کیسے کیسے اکساتی اور ورغلاتی رہی ہے' کیسے کیسے ڈراتی بھی رہی ہے۔"
" اس کی اتنی جرات ' میں اس کا وہ حشر کروں گی ۔۔۔۔ "
" تم کچھ بھی نہیں کرو گی۔" ثوبان نے سختی سے اسے ٹوکا تھا۔