بھیا آۓ تو بھرجائی نے ایک کی ہزار سنائی تھیں۔ وہ بکتے جھکتے رہے۔ میں مٹی کا مادھو بنی چپکی پڑی رہی۔ جیسے جان نہ رہی ہو۔ بے جان۔۔۔۔ مگر بات تو روح کی ہوا کرتی ہے۔ کوڑے تو روح پر لگے تھے۔ بے غیرت بھائی تو بہنوں کو بیچ دیتے ہیں۔ مگر وہ بے غیرت نہ تھے۔ روز ' روز مار لگائی جاتی۔ لفظوں کی جنگ میں ہلکان ہو جاتے ۔ اس سے اچھا تھا۔۔۔۔ وہ بے غیرت بن جاتے۔
اس دن اماں سیانی نے نیاز کی کھیر پکوانے کے لیے بلوایا تھا۔ انہیں لگتا تھا' نیازیں پردیسیوں کو بھولے رستے دکھاتی ہیں اور وہ واپس پلٹ آتے ہیں ۔ بچوں کے شور سے آنگن گونج رہا تھا۔ شام چھائی ہوئی تھی۔ دائیں طرف منڈیر پر مٹی کے دیے جل رہے تھے۔ ان کی لو مدھم ہوائیں تھرتھرا رہی تھیں۔ اماں سیانی میرے ساتھ چولہے کے پاس ہی بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔
" شاد۔۔۔ مجھے تیری بھرجائی کے ارادے صحیح نہیں لگتے۔ وہ ضرور کوئی سازش کرے گی۔ اگر ایسی کوئی بات ہو تو' تو میرے گھر آ جانا۔۔۔۔ جو روکھی سوکھی ہے مل کے کھا لیں گے۔"
میں ہنس دی تھی۔۔۔ اور وہ ہنسنا اج بھی روز اول کی طرح مجھے یاد ہے۔ میں نے سوچا تھا بھلا بھیا کیوں بھرجائی کی باتوں میں آنے لگے۔
مجھے بھولنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ صبح شام کا کچھ پتا نہیں چلتا تھا۔ اس دن شام جانے کب رات کی چادر اوڑھ گئی ' مجھے خبر ہی نہ ہوئی۔ جب میں سارے کام نپٹا کر گھر واپس آئی' آسمان نے بادل اوڑھ لیے۔ گھر کا دروازہ بند تھا۔ میں دروازہ بجاتی رہی۔ دروازہ دھماکے سے کھلا تھا۔ بادلوں کی گڑگڑاہٹ عروج پر تھی۔ بھیا اور بھرجائی صحن میں کھڑے تھے۔ مجھے لگاوقت نے چال چل دی ہے۔ دور جنگلوں میں کوئی گھڑ سوار بینائی کھو بیٹھا تھا۔ میں نے بھیا کی طرف دیکھا۔
" کہاں سے آ رہی ہے بے غیرت ۔۔۔ شریف زادیاں رات کے اس پہر گھرون سے باہر نہیں نکلتیں؟"
بھیا کیا کہہ رہے تھے ۔ بادلوں کی اوازوں میں ٹوٹتے اشیانوں کے سے بین تھے۔ میں نے ملتجی نظروں سے بھرجائی کو دیکھا ۔ " بھیا۔۔۔۔میں تو اماں سیانی کے گھر نیاز کی کھیر پکانے گئی تھی۔ آپ بھرجائی سے پوچھ لیں ۔ میں انہیں بتا کر ہی گئی تھی۔"
سانپ کے زہر سے زیادہ زہریلے الفاظ ہوتے ہیں۔ یہ مجھے اس رات پتا چلا تھا۔ بھابی نے زہر اگلا تھا اور میرا جسم نیل و نیل ہوتا گیا۔
" جانے کہاں سے آ رہی ہے بدکردار۔۔۔ ہر روز جانے کس سے ملنے جاتی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ شوکے سے چکر چل رہا ہے اس کا ۔۔۔۔ وہ بھی تو دو سال تک چوکھٹ پکڑے کھڑا رہا تھا۔" میں سن ہو گئی۔
بھائی تو ایسی باتیں کہنے والوں کے منہ توڑ دیتےہیں۔ مگر انہوں نے وہ کیا جو میں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ وہ جوتا اتار رہے تھے ۔ وہ دن آج تک مجھے یاد ہے۔ میں روتی رہی۔ میرے سر پر انہوں نے جوتے مارے تھے۔ کیا انہیں میرے سر کی سفیدی بھی نظر نہ آئی ہو گی۔ میرے بال جڑ سے اکھڑ گئے تھے۔ میں ان کے پیروں میں گری ہوئی تھی۔ ان ہی پیروں کو میں دباتی تھی۔ وہ فرعون جیسے تھے۔ میری کمر پر آج تک وہ نشان ثبت ہیں ۔۔۔ میری انکھوں سے انسو نہیں خون ٹپک رہا تھا۔