روح کے جلنے کی اذیت دوسری طرف۔۔۔۔ روح کی اذیت کا پلڑا بھاری تھا۔ انکھوں سے پانی بہنے لگا۔
" اگر جو انسو کالے رنگ کے ہوتے تو انسان روتے ہوئے کیسے لگتے؟" ایک بیرن سوچ ذہن میں جھلملائی تھی۔ میں ہنس پڑی۔۔۔ زور سے۔۔۔۔ مگر نہ ہنسنا روک سکی۔۔۔ اور نہ ہی انسو۔۔۔ مجھے اپنے انسو صاف کرنے کا ہنر نہیں آتا۔ روٹیاں چنگیر میں ڈالے میں جانے والی تھی۔ جب رک گئی' روز رک جاتی ہوں۔ صرف اور صرف اس سوال کے لیے جو سیانی کیا کرتی تھی۔
" شاد۔۔۔ سنا ہے کنواری لڑکیوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔۔۔ تو میرے جمال کے لیے دعا کرنا۔۔۔ میرا پردیسی خیر سے گھر واپس آ جاۓ ۔ پھر بارات لے کر تمہاری بھرجائی اور بھائی کے در پر آؤں گی۔"
میں نے دروازہ تھاما اور پلٹی۔
" اماں سیانی! کنواری لڑکیوں کی دعائیں قبول ضرور ہوتی ہیں ۔ مگر صرف ان کی جن کے بالوں میں چاندی نہیں ہوتی۔"
میں یہ کہہ کر اپنے گھر کی طرف نکل گئی۔ اماں سیانی ساکت بیٹھی تھیں۔ ہر روز کی طرح ۔۔۔۔ شاد پر اسےترس نہیں آتا تھا۔ پیار آتا تھا۔ گرہن لگے دل ہوتے ہیں نا یہ ضرور بھٹکاتے ہیں۔ سیانی اماں نے مٹی کے سینے پر ہاتھ رکھا اور قسم کھائی۔
" قسم اس اللہ کی جو ہر ذی روح کا خالق ہے۔ اگر خیر سے میرا پتر واپس آ گیا تو شاد کو اس آنگن میں لے آؤں گی ۔ اگر ایسا نہ کروں تو اسی مٹی میں مٹی ہو جاؤں۔"
آم کے پیڑ پر چڑیا حیران رہ گئی۔ ہواؤں میں نمی سی چھا گئی۔ وقت کے تھال پر کسی عربی ساز کو بجایا جا رہا تھا ۔ دن کا سورج روشنی گھٹانے لگا۔ وقت کو انتظار تھا۔ اس عہد کا جو سیانی نے کیا تھا۔ کیا خبر' کیا پتا جمال واپس آ جاۓ' مگر دور پہاڑی پر کسی انجان جگہ ایک قبر جنگلی پھولوں سے مہک رہی تھی۔ وہ قبر کتبے سے خالی تھی۔ مگر ہوائیں واقف تھیں۔ سارے راز جانتی تھیں۔ مگر لب بستہ تھیں ۔ انہیں اللہ کی طرف سے حکم ملا ہے کہ امید ' آس' یقین' کو سرسبز رکھا جاۓ ' اف یہ زندگی۔۔۔۔
بھرجائی نے پرات اٹھا کر پھیکنی تھی۔ میں ڈر گئی۔ مجھے پتا تھا کونسا تماشا ہونے والا تھا۔ جلی ہوئی روٹیاں زمین پر پڑی تھیں۔
" کام کی نہ کاج کی' دشمن اناج کی۔۔۔ کس کے خیالوں میں تھی جو روٹیاں جلا دیں۔۔۔۔ خدا غارت کرے تجھے۔۔۔۔ خدا جانے کیا سمایا رہتا ہے آج کل تیرے ذہن میں۔۔۔۔ آ جاۓ تیرا بھرا تیری ٹانگیں تڑواتی ہوں۔" وہ غصہ ہوتی رہی۔
کفگیر سے اس نے مجھے بہت مارا تھا۔ اس نے میرے چہرے پر زور سے تھپڑ مارا تھا۔ ایسا لگا ابھی آنکھ ابل کر باہر آن گرے گی۔ میں آدھا گھنٹہ پانی سے دھوتی رہی' نیل پڑ گیا تھا۔ میں نے روٹیاں اٹھاتے ہوۓ ایک بار تو آسمان کی طرف دیکھا تھا۔ جانے میری ان نظروں میں کیا تھا۔ سوال۔۔۔ یا۔۔۔۔ کچھ اور۔۔۔۔ وضاحتیں دینا بھی دقت طلب کام ہے۔ پانی سے نوالے نگلتی رہی۔