SIZE
2 / 7

" بے نیازی میں کسی کی پروا نہیں ہوتی۔ وہاں صرف اور صرف ہم ہوتے ہیں اور ہمارا اللہ ہوتا ہے۔ پھر لوگوں کی حاجت نہیں ہوتی۔ کسی صورت بھی نہیں ۔ رتی برابر بھی نہیں۔"

وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ چاند کا سفر ختم ہونے کو تھا۔ وہ جھک کر کچھ کہہ رہا تھا۔

" لوگوں کی ضرورت ضرور پڑتی ہے۔ بے نیازی کا ڈھونگ چوراہے میں رکھی ہنڈیا کی طرح پھوٹتا ہے۔"

چھپی ہوئی ہوا قطبین میں پرواز کر گئی۔ پرندوں کی آوازایں چاندی کے کشکول میں گرتے سکوں کی طرح ثابت ہو رہی تھیں۔ دور کہیں سے کوئلوں کی کرلاتی آوازایں آ رہی تھیں۔ شاید انہیں بھی تنہائی کا زہر مار گیا تھا۔

گرمی نے ہر ذی روح کو جیسے جھلسا کر رکھ دیا تھا اور سارے میں موت کی سی ویرانی تھی۔ بے دم سی۔۔۔۔ خوف ناک سی ۔۔۔۔ میں میلے دوپٹے سے پسینہ پونچھ کر بے دم ہوئی جا رہی تھی۔ نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ بادل کا کوئی ٹکڑا تک نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ نماز استسقاء پڑھنے والی ہستیاں کہاں تھیں ۔ اماں سیانی تندور میں لکڑیاں ڈال رہی تھیں۔

" شاد۔۔۔۔ اب تو اس دوپٹے کو چھوڑ دے ۔۔۔۔ میرے پاس ایک نیا پڑا ہے ' تجھے دے دوں گی۔" اماں سیانی کو ہر بات کا خیال رہتا تھا۔ آخر کو فوجی کی ماں تھیں۔ میں اس بات پر تڑپ گئی۔

" میں کوئی منگتی نہیں ہوں۔۔۔۔ میرے بھائی' بھرجائی سلامت ہیں ابھی۔۔۔۔ میں کسی کے دوپٹے کیوں اوڑھتی پھروں۔۔۔۔"

کچھ فقرے ہمیں برسوں کا سفر طے کروا کر بولے جاتے ہیں ۔ میں نے یہ کیسے کہا تھا یہ مجھے پتا تھا۔ تندور میں سوکھی لکڑیاں شریر شیطان کے چیلوں کی طرح جل رہی تھیں ۔ چٹک۔۔۔ چٹک۔۔۔۔ سیانی کی ہنسی کیسی تیکھی تھی ۔ چبھتی ہوئی ' میں دہل گئی۔

" کن خیالوں میں رہتی ہے تو۔۔۔۔ ماں باپ چلے جائیں تو کوئی ماں جایا اپنا نہیں رہتا ۔ تیری بھابی خود تو گھاٹ توڑتی ہے۔ ساری خواری تو تو کرتی ہے ۔ اپنے ارام کے لیے تیرے بھائی' بھرجائی نے تیری بھی جوانی رول دی۔"

مجھے لگا کسی نے مجھے تندور میں دفن کر کے میرے ارد گرد سواہ بھر دی ہو۔ " نہیں اماں سیانی۔۔۔۔ ایسی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ میرا بھرا بڑا ہی اچھا ہے۔" میری دلیل وزن سے خالی تھی۔ تندور جل رہا تھا۔

اماں میرے ساتھ آم کی چھاؤں میں زمین پر بیٹھ گئی۔

" میری دھی۔۔۔۔ جیسے تیرا خیال رکھتا ہے نا تیرا بھرا۔۔۔۔ اس بات کو پورا پنڈ جانتا ہے۔ اصل فرض تو بیاہ کا ہوتا ہے۔ ورنہ کھلانا ' پلانا تو دشمن بھی گوارا کر لیتے ہیں۔"

بات سچی ہو تو کڑوی بھی ہوتی ہے۔ مجھے یقین آیا تھا۔ مٹی پر میں نے لکڑی سے کئی نقش اتار دیے۔ سمجھ میں نہ انے والے۔۔۔۔ پھر ہاتھ مار کر مٹا دیا۔ اب مٹی نقوش سے خالی تھی۔ آم کے بور کی باس نتھنوں میں گھس رہی تھی۔

" اماں سیانی۔۔۔۔ جلے چہرے والی سے کون بیاہ رچاتا ۔ بھرا نے بہت کوشش کی مگر جب نصیب کے دروازوں پر تالے ہوں تو کیا حاصل۔۔۔۔"