SIZE
1 / 7

رات کا آخری پہر گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔ آنگن میں لگا اکلوتا امرود کا درخت چمگادڑ کی طرح پر بھیلاۓ عجیب سا لگ رہا تھا۔ عجیب چیزیں " خوف " زدہ کرتی ہیں۔۔۔۔ کچی مٹی کے گارے سے لپٹی ہوئی دیواروں میں شامل ریت کے ذرے مدھم چاندنی میں چمک رہے تھے۔۔۔۔ وہ کھڑکی کا پٹ کھولے بیٹھی تھی۔۔۔۔ آنگن میں لگتا تھا کسی نے سفیدی پھیر دی ہو۔ اس کی نظر چاند پر تھی۔ چاند جس کے وجود پر لگا " داغ" بھی اسے معتبر ہونے سے نہ روک سکا۔ اپنے چہرے کی جلد کی سطح کھردری سی محسوس ہو رہی تھی۔ چہرے کے " داغ" معتبر نہیں کرتے۔ اس نے چاند کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔

" تیرا داغ تجھے معتبر کر گیا۔۔۔۔ مگر میرا داغ مجھے تنہائیوں کے شہر میں چھوڑ گیا۔ تنہائی میں محفلیں لگتی ہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے تنہائیوں کی اوازایں نہیں ہوتیں۔ مگر لوگ تو بہرے ہیں۔ آوازایں تو صرف تنہائیوں کی ہی ہوتی ہیں۔"

وہ چاند سے باتیں کر رہی تھی۔ امرود کے پتوں کے وجود میں ہوا چھپ کر بیٹھ گئی۔ جیسے وہ کھڑکی والی لڑکی کی کہانی میں خلل نہ بننا چاہتی ہو۔ اس کی انکھوں میں جیسے تنہائیوں کے دیپ جلتے تھے۔ جس میں تیل نہیں بلکہ انسو ڈالے جاتے۔ بھانبڑ جلتے وجود میں پارہ بھرنے لگتا۔ مگر زبان سے "اف" تک نہ نکلتی۔ وہ تنہائیوں کی ساحرہ تھی۔ کمال کا ضبط رکھتی تھی۔ طوفان کواڑ توڑنے لگتے' مگر وہ کچھ نہ کرتی۔ ننگے پاؤں کچے آنگن میں ٹہلتی ' دوڑتی' رک جاتی' مگر ہنستی نہیں تھی۔

تارے چاند کی اوٹ سے اسے دیکھنے کی چاہ میں مچل گئے۔مگر چاند نے انہیں ڈپٹ دیا۔ بھلا کوئی تک بنتی تھی کہ دوسروں کے " راز و نیاز" میں دخل اندازی کی جاۓ۔

وہ ہتھیلیاں پھیلاۓ بیٹھی تھی۔ لکیروں کا ایک گہرا سا جال۔۔۔ اور ان میں سفر کرتی زندگی۔۔۔۔

" لوگ اتنے دوغلے کیوں ہیں۔ تجھے قبول کرنے کا ہنر تو سیکھ لیا۔۔۔ مگر مجھے قبول کرنے کا ہنر بھول گئے۔ تمہاری روشنی پر جان دیتے ہیں ' مگر میری محبتیں تو کچھ بھی نہیں' دل جوڑ نہیں سکتے تو توڑنے کی چاہ کیوں کرتے ہیں؟ آج سے میں بے نیازی کا ہنر سیکھ رہی ہوں۔ پتا ہے وہ کیا ہوتا ہے؟"

امرود کے پتوں میں چھپی ہوئی ہوا بے چین ہوئی۔ چاند بھی جیسے منتظر سا تھا۔ چاند کی مدھم روشنی پتنگوں کو جھلسانے لگی تھی۔ شاد نے ساز کے ٹوٹتے سروں کی طرح الفاظ کو دوبارہ جوڑا۔