ایسے میں نیا جوڑا۔ سسی کو پتا تھا' خالہ نے حاجرہ کو صاف ٹالا ہے۔ یہ ہی آگہی اسے بار بار بے چینی میں مبتلا کر رہی تھی۔ جتنی خوشی اسے عید کی تھی' سب ماند پڑ گئی۔ اماں نے بھی اس کی بے توجہی محسوس کر کے اسے ٹوکا۔ لیکن وہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھی۔ وہ چوڑیاں خرید کر' مہندی لگوا کر واپس آئی تو سارا راستہ یہ ہی سوچتی رہی کہ اپنے خیالات اماں تک کیسے پہنچاۓ ۔
" اماں ۔۔۔۔" جلدی جلدی کام نپٹاتی اماں کو اس نے بڑے سست انداز میں مخاطب کیا۔
" کل عید ہے۔" اماں نے اسے دیکھا۔ یہ سوال تھا نہ جواب' پھر کیوں ایسے کہہ رہی ہے؟ اماں نے جواب نہیں دیا ۔
" کل سب نئے کپڑے پہنیں گے ۔ بہت مزا آۓ گا۔ میں بھی نئے کپڑے پہنوں گی۔" اماں نے اس کی بنا سر پیر کی تقریر پر اسے کوفت سے گھورا۔
" سسی! کیا ہو گیا ہے تجھے۔ کیوں بکواس کیے جا رہی ہے؟" اماں نے اسے ٹوکا۔
" اماں!" اس نے تھوڑا توقف کیا اور اماں کے مقابل بیٹھ گئی۔
" حاجرہ کے کپڑے نہیں بنے۔" اس نے نظریں نہیں اٹھائیں۔
" میرے تین جوڑے بنے ہیں۔ اس کا ایک بھی نہیں بنا۔ اسے لال رنگ بہت پسند ہے۔ میں اپنا لال جوڑا اسے دے دوں۔" تمام باتیں جلدی جلدی کہہ کر اس نے ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھائیں۔ اماں اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ وہ ہلکا سا مسکرائیں۔
" جب نیکی کا سوچا ہے تو دیر کیس بات کی ۔ جا دے آ اسے۔ اس کا بھلا ہو جاۓگا۔ اللہ تیرا بھی بھلا کرے۔" اس کے لبوں پر دلنشین سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ اماں کے الفاظ نے جیسے اس میں نئی روح پھونک دی تھی۔ وہ جھٹ سے کمرے کی طرف بھاگی اور لمحے بھر میں سرخ جوڑا لیے دروازہ پار کر گئی۔ چاند بادلوں کی اوٹ میں ہو چکا تھا اور آسمان کے سارے ستارے اس کی انکھوں میں تھے۔