SIZE
1 / 2

سرخ رنگ کے جوڑے پر ڈھیر سارے سنہری ستارے جھلملا رہے تھے۔ اس نے جوڑے کو پھیلایا اور پیار سے خود میں بھینچ لیا۔ اس کی انکھوں سے چھلکتی خوشی دیدنی تھی۔ اس نے باری باری اپنے تینوں جوڑوں کوایک بار پھر پھیلا پھیلا کر دیکھا۔ دیکھ دیکھ کر اس کا دل نہیں بھر رہا تھااور وہ لمحہ لمحہ گن کرگزار رہی تھی کہ کب وہ انہیں پہنے۔ سارا سال مزدوری کر کے تھوڑے تھوڑے پیسے بچا کر یہ عید کا ہی تو موقع ہوتا ہے جب اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کیا جاۓ۔

اس بار عید کے لیے اس کے تین جوڑے بنے تھے اور اس میں سرخ رنگ بھی شامل تھا ۔ ہر لڑکی کی طرح اس کا بھی پسندیدہ رنگ ' اس کی عید' عید سے پہلے ہی ہو گئی تھی۔ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔

" سسی!" روٹی ڈال لے' ازان کا وقت ہو رہا ہے۔ امی کی اواز پر وہ چونکی ۔ جلدی جلدی سارے کپڑے سمیٹ کر رکھے ' تندور پر روٹی لگائی اور ایک افطاری کی ایک پلیٹ بنا کر باہر نکل آئی۔ محلے کے تمام گھروں میں افطاری بھجوائی جا چکی تھی۔ اب یہ کس کے گھر دی جاۓ؟ زیادہ سوچ بچار میں پڑے بغیر وہ پڑوس میں ہی چلی آئی۔ دروازہ کھلا تھا۔ اس نے بھی زیادہ تکلف نہ برتا اور اندر چلی آئی۔

" اماں۔۔۔۔ کل آخری روزہ ہے۔ میرے ابھی تک کپڑے نہیں بنے۔" حاجرہ کی اواز پروہ صحن میں ہی رک گئی۔

" تو نے لال اوڑھنی کا وعدہ کیا تھا' وہ بھی نہیں لائی۔" سسی نے زرا سا اندر جھانکا۔ حاجرہ' خالہ کے پاس رونی صورت بناۓ بیٹھی تھی۔

" دیکھ حاجرہ! تنگ نہ کر۔ تیرے ابا سے کہوں گی' وہ لا دے گا۔" خالہ نے رخ پھیر لیا اور تسبیح کے دانے گرانے لگیں۔ اس نے صحن میں پڑے لوہے کی بالٹی پر کھٹکا کیا تو دونوں نے چونک کر اسے دیکھا۔ اس نے کچھ بھی ظاہر کیے بنا افطاری دی اور بجھے دل کے ساتھ واپس آ گئی۔

چاند نظر آ گیا تھا۔ پورا محلہ مبارک باد سے گونج اٹھا تھا۔ ہر گھر میں افراتفری سی مچ گئی تھی۔ افطاری کے بعد ہی اماں کل کی تیاریوں میں لگ گئیں۔ ضروری کام نپٹا کر اماں چوڑیاں پہنے مارکیٹ جانے لگیں۔ تو اسے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ اسے بھی مہندی لگوانا تھی ۔ وہ بے دلی سے ساتھ چلی آئی۔ کچھ بھی کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ بار بار حاجرہ اس کا اداس چہرہ نطروں کے سامنے آ جاتا۔ وہ جانتی تھی حاجرہ کے گھر کے مالی حالات کافی خراب ہیں ۔ کچھ ہفتوں پہلے خالو بہت بیمار ہو گۓ تھے۔ جمع جتھا سب علاج پر لگ گیا۔ خالہ کا ہاتھ اج کل بہت تنگ تھا۔