SIZE
2 / 3

ذکیہ خاتون نے اگے بڑھ کر چولہا بند کیا اور چمچہ رابعہ کے ہاتھ سے لے لیا۔

" رہنے دیں خالہ ! میں کر لیتی ہوں' وہ تو بس یونہی اماں کے ہاتھ کی بنی سویاں یاد آ گئیں۔" رابعہ نے انکھوں کی نمی کو ہاتھوں سے رگڑا۔

" یہ کیا رابعہ؟ سویوں کا تو رنگ ہی اتر گیا۔" ذکیہ خاتون نے چمچہ بھر کے رابعہ کے اگے کیا۔

" لگتا ہی نہیں کہ یہ رنگین سویاں ہیں حالانکہ اچھی کمپنی کی ہیں ۔" ذکیہ خاتون کے چہرے پر افسوس اور حیرانی کے ملے جلے تاثرات تھے۔

"غضب خدا کا ہر چیز نقلی' ہر چیز میں ملاوٹ ۔" میٹھے کی انتہائی شوقین ذکیہ خاتون کا ملال کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ کیونکہ سویاں ان کی فرمائش پر ہی بنی تھیں۔

" چھوڑیں خالہ ! آپ چیزوں ملاوٹ اور مصنوعی پن کا رونا رو رہی ہیں یہاں تو رشتوں میں محبتوں میں ہی ملاوٹ اور مصنوعی پن آ گیا ہے' کہاں دھونڈیں گی آپ خالص چیزیں کہ جہاں خالص محبتیں ملنا مشکل ہوتا جا رہا ہےوہ خونی رشتے ' وہ محبتیں کہ جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر زندگی ہے تو صرف ان ہی کے دم سے ہے اور پھر جب مادیت پرستی کی ملاوٹ ان رشتوں میں اپنا زہر گھولتی ہے تو تب انسان کی ساری امیدیں' ساری خوش فہمیاں اپنے آپ ہی مرنے لگتی ہیں۔" آخری بات پر رابعہ کے کب کے رکے آنسو بہہ نکلے۔

اور یہ کوئی آج کی بات تو نہیں بلکہ جب سے رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوا تھا' رابعہ یونہی بات بات پر جذباتی اور اداس ہو جاتی اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ عید قریب آ رہی تھی اور پچھلی عید کی طرح اس سال بھی اسے امید تھی کہ اس کے میکے میں بچا اس کا واحد خونی رشتہ اسے عید پر ملنے ضرور آۓ گا اور وہ تھا اس کا سجاد بھائی جو اپنی محنت سے اب اپنے گاؤں کا بڑا زمین دار بن چکا تھا۔ اب اس کے پاس اتنا وقت کہاں تھا کہ وہ شہر میں بیاہی گئی اپنی بہن سے کم از کم عید کے دن ہی ملنے اتا۔

شروع شروع میں جب اماں ابا زندہ تھے تو کبھی کبھار رابعہ کے گھر چکر لگا لیتا' لیکن اب تو دوسرا سال تھا عید پر آنے کا خیال نہ ایا۔ رابعہ بہن تھی' دل کے ہاتھوں مجبور اکثر اپنی ساس جو رابعہ کی ماں کی خالہ زاد بہن تھی ' ان کے ساتھ گاؤں چلی جاتی تھی' لیکن اب سال ہونے والا تھا رابعہ نے بھی دل پر پتھر رکھ کے اب وہاں نہ جانے کی ضد پکڑ لی تھی یا پھر بہنوں والا مان در آیا تھا اس میں۔

پچھلے چند دنوں سے وہ بہت اداس تھی ۔ شوہر نے بھی کہا ' ساس نے بھی گاؤں چلنے کو کہا' لیکن وہ نہ مانی' اس کے اندر شاید ماں باپ کے زمانے کی لاڈلی رابعی ضد پکڑ کر بیٹھ گئی۔

وہ اکثر ماں کے ہاتھوں سے بنائی گئی سویوں کو یاد کرتی اسے یہ دکھ نہیں تھا کہ اب وہ سوغاتیں نہ تھیں بلکہ غم تو یہ تھا کہ اب وہ محبتیں نہ تھیں۔

عید کی صبح ہر عورت کی طرح رابعہ کے لیے بھی بہت مصروفیت لے کر آئی اور اسی مصروفیت میں رابعہ کو پتا ہی نہ چلا کہ صبح کب دوپہر میں تبدیل ہوئی' ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس نے اپنے پانچ سالہ بیٹے ذیشان کو باپ کے ساتھ آئس کریم کھلانے روانہ کیا اور خود برآمدے میں رکھی چارپائی پر کمر سیدھی کرنے کی غرض سے لیٹ گئی۔ خالہ محلے میں کہیں عید ملنے گئی تھیں۔