" رابعی! رابعی!"
خالہ جاتے ہوۓ شادی دروازہ کھلا چھوڑ گئی تھیں اس لیے تو آنے والا بغیر کسی آہٹ کے رابعہ کی چارپائی کے نزدیک پہنچ گیا۔
" رابعی!"
رابعی کو اس نام سے اس انداز سے اس دنیا میں صرف ایک شخص ہی پکار سکتا تھا' اس لیے تو رابعہ نے بند انکھوں سے فورا بازو ہٹایا۔
" سجو بھائی!" رابعہ اٹھی اور اک پل کی تاخیر کیے بغیر فورا بھائی سے لپٹ گئی۔
" پگلی عید کے دن بھی کوئی اتنا روتا ہے۔" سجاد کا اپنا چہرابھی انسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔
" سن رابعی! تیری بھتیجی پیدا ہوئی ہے۔" چارپائی پر بیٹھتے ہوۓ سجاد نے رابعہ کو خوش خبری سنائی مگر چہرا اب بھی سنجیدہ تھا۔
" کل سے تیرے تیرے دونوں بھتیجے اسے اٹھاۓ پھر رہے' بالکل کسی گڑیا کی طرح ' اسے ایک دوسرے سے چھین لیتے ہیں پیار کرتے ہیں۔ تب مجھے اپنی گڑیا یاد آ گئی۔"
سجاد نے بھراۓ ہوۓ لہجے میں ساتھ بیٹھی رابعہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔
" اچھا چھوڑو ان باتوں کو ۔ یہ دیکھ میں تیری عیدی لایا ہوں۔" سجاد نے خوش ہوتے ہوۓ ایک طرف رکھے شاپروں کی طرف اشارہ کیا۔
رابعہ خود ہی اٹھ کر ان شاپروں کو کھولنے لگی جس میں اس کے لیے ' اس کے شوہر کے لیے ' بیٹے اور ساس کے لیے ڈھیر ساری چیزیں' کپڑےاور جوتے وغیرہ تھے اور ایک شاپر میں دیہاتی رواج کے مطابق گھی' چینیاور سویوں کے پیکٹ تھے۔
" رابعی! ان چیزوں میں اماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی گھوڑی والی خالص سویاں نہیں ہیں ' لیکن تو ان بازار سے خریدی ہوئی سویوں میں' ان چیزوں میں وہی محبت محسوس کر سکتی ہے۔"
سجاد نے بہن کے مسکراتے چہرے کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا اور رابعہ سے بڑھ کر اور کون ان چیزوں سے خالص محبت اور خوشی محسوس کر سکتا تھا۔ وہ ایک ایک چیز کو محبت سے اٹھا کر دیکھ رہی تھی بے شک ان میں سے اکثر چیزیں ملاوٹ شدہ تھیں' مصنوعی پن لیے ہوۓ تھیں ' لیکن ہر چیز سے چھلکتی ہوئی محبت بہت خالص تھی ۔ اس عید پہ ایسا تو نہیں جو اس مصنوعی دور میں آپ کی خالص محبت کا منتظر ہو' سوچیے گا ضرور۔