بہت رونا بھی تو آگیا. اونٹ گلی کا موڑ مڑا تو میں ضبط نہ کر سکا. میں نے چیخ ماری."امی جی"!...... ور بھائی جان کجاوے میں
گھٹنوں کے اتے اور مجے ڈانٹا. "دیکھتے نہیں ہو شیرو اور نورا آرہے ہیں. وہ کیا کہیں گے ہم اتنے بزدل ہیں. آنکھیں پونچھ لو.
چپ ہو جاؤ. آیات الکرسی پڑھو.
مجھے بھائی جان کی آواز بھیگی بھیگی لگی. میں نے کہا. "آپ بھی آنکھیں صاف کر لیں اور آیت الکرسی پڑھیں.
اور وہ جیسے مان گئے. "اچھا"!
پھر میں نے کجاوے میں گھٹنوں کے بل کھڑے ہوکر کہا. "بھائی جان. جب زمان دھوبی اپنے بچوں کو گھر چھوڑ کر
نیلی ڈھیری پر جاتا ہوگا تو ہماری طرح روتا ہوگا".
"کیوں؟ وہ کیوں روتے"؟ بھی جان نے پوچھا.
میں نے کہا، "ہم اپنی امی کے سہارے ہیں. وہ اپنے بچوں کا سہارا ہے. ہم رو رہے ہیں تو وہ کیوں نہیں روتا ہوگا؟"
میں سہارے کو فقرے میں استعمال کر کے بہت خوش ہو رہا تھا.
"چپ رہی". بھائی جان بولے. "یہ تم آیت الکرسی پڑھ رہے ہو"؟
گاؤں سے باہر جب اونٹ کھیتوں کی ایک پگڈ نڈی پر چلنے لگا تو نورے نے اسے روک لیا پھر شیرو نے کجاوے کے قریب
آکر کہا. "لو جی اب میں واپس چلوں. بچے جاگیں گے تو مجھے کھاٹ پر نہ پا کر روئیں گے".
"تم اپنے بچوں کا سہارا ہو نا چچا شیرو"؟ میں نے سہارے کو ایک فقرے میں گھڑا، اور شیرو نے نورے سے کہا. "دیکھا نورے.
کیسی چٹاک پٹاک باتیں کرنے لگا ہے میرا چھوٹا سائیں." پھر اس نے اپنا ہاتھ اوپر کجاوے کی طرف بڑھایا. میں نے کجاوے میں
اپنا ہاتھ لٹکا کر مصافہ کیا تو وہ میرے ہاتھ کو ہولے ہولے ہلا ہلا کر کہنے لگا". وعدہ کرو جی کہ اس ایک سال میں تم ایک دم
دس سال بڑے ہو جاؤ گے. کہیں میں تمہاری جوانی کی راہ تکتے تکتے کھسک ہی نہ جاؤں اور کہیں یہ حسرت دل ہی میں
نہ لے جاؤں کہ میاں اکبر اور میاں اطہر کی شادی پر میں دو سو روپے کماؤں گا اور اپنی ماں کے دانت لگواؤں گا. لکھ لو
کسی کتاب میں. دو سو سے ایک پیسہ کم نہیں لوں گا. تم کم دو گے گے تو روٹھ جاؤں گا. میری ماں بیچاری تو اسی سہارے اپنے
پوپلے منہ سے پٹاخے چھوڑتی رہتی ہے".