آج معمول سے زیادہ سردی تھی۔ بادل بھی چھاۓ ہوۓ تھے۔ اندر کی تنہائی سے گھبرا کر میں سامنے والے پارک میں چلی گئی۔ پارک میں اکا دکا لوگ موجود تھے۔ ہمیشہ کی طرح جا کر بنچ پر بیٹھ گئی۔
سردی سے کپکپاتے جسم کو میں نے چادر سے ڈھانپنے کی ناکام کوشش کی میرے بنچ سے آگے والے بنچ پر ایک اور لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ چپس کھانے کے ساتھ ساتھ موبائل پر کسی سے گفتگو بھی کر رہی تھی ۔ میں نہ چاہتے ہوۓ بھی اسی کی طرف متوجہ ہو گئی۔ بات کرتے وقت اس کی اواز کبھی اونچی اور کبھی بہت دھیمی ہو جاتی تھی کسی کی باتیں چوری چھپے سننا اصولا بری بات ہے۔ مگر اس لڑکی کی باتوں میں ویلنٹائن کا ذکر سن کر میں چونکے بنا رہ نہ سکی۔
آہ! کل 14 فروری ہے میرے لیے دکھوں بھرا دن تین سال ہو گئے مجھے اپنی نادانی میں کی گئی غلطی کی سزا اب بھی یاد ہے' 14 فروری کا وہی ظالم دن تھا۔ جب میرے اپنے میری نادانیوں کی وجہ سے مجھ سے دور ہو گئے تھے۔ اتنے دور کہ میں اب چاہتے ہوۓ بھی ان کو اواز نہیں دے سکتی ہوں۔
میرے اندر کا دکھ اچانک بڑھ گیا تھا۔ وہ لڑکی اب بھی موبائل سے لگی ہوئی تھی۔ خود پر قابو پانے کے بعد اٹھ کر اس نادان لڑکی کے پاس چلی گئی جو گھر والوں سے چھپ کر ویلنٹائن منانے کا پروگرام بنا رہی تھی۔ مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر اس نے فورا موبائل کان سے ہٹا کر بند کر دیا۔
" مجھے نہیں پتا کہ تم کون ہو اور نہ تم مجھے جانتی ہومگر میرا مقصد تمہیں سمجھانا ہے۔ کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ تم بھی میری طرح اپنوں کا بھروسہ گنوا دو۔ میری طرح جان بوجھ کر غلطی کا خمیازہ ساری زندگی بھگتو۔"
" کون ہیں آپ؟ اور یہ کیا کہہ رہی ہیں؟" وہ لڑکی حیرت سے بولی۔
" میں کل وہ تھی جو آج تم ہو اور میں نہیں چاہتی کہ تم وہ بنو جو آج میں ہوں ۔ چلو ان باتوں کو چھوڑو میں تم کو اپنی کہانی سناتی ہوں۔ سن کر تم کو سمجھ آۓ گی حالانکہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اپنا ماضی کا کمزور گوشہ کسی کے ساتھ شئیر کرنے کا ' آج دل پر پتھر رکھ کر میں اپنی ماضی کی کہانی تم کو سنانا چاہتی ہوں' کیونکہ میں نہیں چاہتی ہوں کہ کوئی بھی لڑکی ایسی غلطی کرے جو میں کر چکی ہوں۔" وہ لڑکی شش و پنج میں تھی۔
" بہت زیادہ وقت نہیں لوں گی؟ "میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا۔ وہ الجھن میں مجھے دیکھتی ہوئی بنچ کے کنارے پر بیٹھ گئی۔