SIZE
1 / 27

سنیں! اوہ کار لاک کر رہا تھا. جب ایک آواز نے اچانک اسکو متوجہ کیا.اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا.سفید چادر میں ملبوس ایک حواس باختہ سی لڑکی کھڑی تھی.

"مجھے ایک فارم لا دیں".اس نے مڑتے ہوے التجایه انداز میں کہاتھا.کوئی شناسا چہرہ ہوتا تو اول تووہ کبھی بھی اس سے مدد مانگنے کی حماقت نہ کرتا اور اگر

کرتا بھی تو بڑی رکھائی سے اپنی مدد آپ کی تلقین کرتا.وہ مزاجاً ایسا ہی بےمروت اور بےلحاظ واقع ہوا تھا.ایک تیکھی سی نظر اس نے لڑکی پر ڈالی تھی.

"آپ کے ساتھ کوئی نہیں ہے".بڑے بےتاثر انداز میں اس نے پوچھاتھا. "نہیں میں اکیلی آئی ھوں".وہ ہاتھ میں پکڑے رومال سے ماتھے پی آیا پسینہ خشک کر

کے بولی تھی. "ایڈمشن فارم چاہیے آپکو".

ہان ووہی چاہیے.وہ چند لمحے اسکے چہرے کو دیکھتے ہوے کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا.پھر بادلنخواستہ قدم بڑھا دیے.

"آئیں میرے ساتھ".اس لڑکی نے فورا میری پیروی کی تھی مگر اس ک پیچھے پیچھے چلنے ک بجاتے وہ اس ک ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش کرنے لگی.مگر چند

منٹوں تک اس کوشش میں مصروف رہنے کے بعد بھی جب وہ اس کے تیز قدموں کا مقابلہ نہ کر پائی تو وہ وہ یک دم رک گئی.

"پلیز!ٹھہرجایئں نہ . آپ تو بھات تیز چل رہے ہیں".

اس کی آواز پر اس کے قدم بے اختیار رک گئے تھے.بری حیرانی سے اس نے اپنے مخاطب کو دیکھا جواب اس کے پاس آگیا تھا. ناگواری کی ایک لہر اس کے

اندر اٹھی تھی.مگر اس کے قدموں کی رفتار اب آہستہ ہوگی تھی.وہ لڑکی اب بغیر کسی مشکل کے اس کے برابر چل رہی تھی.

"یہ فارم کتنے کا آتا ہے"؟ یہ پوچھا جانے والا پہلا سوال تھا."پتا نہیں"اس نے بغیر دیکھے جواب دیا تھا.

"یہ فارم ملتا کہاں سے ہے".ایک اور سوال پوچھا گیا تھا.جواب اب بھی بوہت بے نیازی سے دیا گیا تھا."آفس سے".تیسرا سوال بھی فراٹے سے کیا گیا تھا.

"آفس کہاں ہے".ہم وہیں جا رہے ہیں.اس نے اب بھی اسکی طرف دیکھنے بغیر جواب دیا تھا.پھر سوالوں کی ایک بوچھاڑشروع ہوگی تھی.

"آفس کیا زیادہ دور ہے"؟پتا نہیں! میں نے فاصلہ کبھی ناپا نہیں ہے.

"کہی اور سے فارم نہیں ملتا"؟"ملتا ہوگا"تو وہاں سے کیوں نہ لے لیں"؟ اگر آپکو ایسی جگہ کا علم ہے تو آپ ضرور لے لیں.

اس بار اسکے لہجے میں خفگی نمایاں تھی مگر سوال پوچھنے والی ذرا متاثر نہیں ہوئی.سوالوں کا یہ سلسلہ پھر وہی سے جوڑ دیا گیا.

"آفس سے فارم مل جے گا نا ".

"اگر ہوگا تو ضرور ملجاتے گا".

"اور اگر نہ ملا".

"تو میں کیا کر سکتا ہوں".

"اگر فارم نہ ملا تو میں ایڈمشن کے لئے کیسے اپلاے کروں گی".اب لہجے میں تشویش شامل ہو چکی تھی.

"مجھے نہی پتا". میں اب اسکے سوالوں سے عاجز آچکا تھا.

"جن لوگوں کو فارم نہیں ملتے"وہ کیا کرتے ہیں؟

"صبر" اس مختصر جواب نے کچھ لمحوں کے لئے خاموشی طاری کر دی.

"آپ یہاں پڑھتے ہیں". کچھ دیر بعد سوالات دوبارہ شروع ہوگئے تھے.

"ہان "اگلا سوال حماقت سے بھرپور تھا.

"آپکو ایڈمشن مل گیا تھا"؟

"اگر میں یہاں پڑھتا ہوں تو اسکا سیدھا سیدھا مطلب ہے کے مجھے ایڈمشن مل گیا تھا".

"نہیں "میرا مطلب ہے آپکو ایڈمشن فارم کے زرئیے سے ہ ایڈمشن ملا تھا".

"ہاں".

اگلا سوال پھر احمقانہ تھا. "آپکو ایڈمشن فارم مل گیا تھا"؟

اس نے صبروضبط کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوے کہا.

"ہاں"

"کہاں سے ملا تھا"

"آفس سے"

"جہاں ہم جا رہے ہیں وہاں سے"

"جی وہیں سے"

:مجھے بھی مل جے گا ناں "؟ اس بار سوال التجائیا تھا.

"دعا کریں"

اس نے کہا تھا. بہت اچانک اسے احساس ہوگیا تھا کے وہ لڑکی احمق نہیں نروس ہے.

اور جو پوچھنا چاہ رہی ہے وو ٹھیک سے پوچ نہیں پا رہی.

اب وہ شاید دوا میں مصروف ہو چکی تھی. اس لئے باقی کا راستہ وو خاموش رہی.

"وہ آفس ہے اور وہ ونڈو "اس لائن میں کھڑی ہو جایئں.جن میں پہلے کچھ لڑکیاں کھڑی ہیں.