فٹ پتہ پر چل کر اپنی موٹر سائیکل کی طرف جاتے هوئے میں سوچ رہا تھا کہ کیا میں اس قبل ہوں کہ معصومہ کو بائیس
ہزار کا تحفہ دے سکوں؟ لیکن دل تھا کہ کسی بچے کی طرح مچل مچل کر اسی چاند کی ضد کیے جا رہا تھا. یہ ایک مرد کا
دل تھا اور مرد شیر مارسکتا ہے. لیکن اپنے دل کو نہیں مارسکتا یہ تو ازل سے کمزور و عورت کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے.
میں نے ایک نگاہ اپنی بائیک پر ڈالی. پچھلے مہینے حمد مستری میرے محلے میں رہتا تھا. پرانی گاڑیوں کی مرمت اور خرید
و فروخت کا کام کرتا تھا. نجانے کیوں وہ پچھلے وہ سالوں سے میری بائیک کے پیچھے لگا ہوا تھا.
"باؤ جی. ھن دسووی" کی خیال اے؟" مجھے گلی میں آتے جاتے اکثر پشت پر اسکی آواز سنائی جاتی تھی.
اسکا خیال تھا کہ مجھے اپنی موٹر سائیکل پیچ کر نئی موٹر سائیکل خرید لینی چاہیےچلا آیا.
، جبکہ میرا ایسا کوئی اردہ نہ تھا. مجھے
اپنی چاند گاڑی بے حد عزیز تھی.
حامد مستری کی ترغیب میں جیسے جیسے شدت پیدا ہوئی تھی، ویسے ویسے میرے اندر ارادے کی پختگی میں اضافہ ہوتا گیا تھا.
میں گھر جانے کے بجاتے سیدھا حمد مستری کی دکان پر جا پہنچا.
"مستری! موٹر سائیکل کا کیا دوگے؟"
"بیس ہزار!" اسنے میرے چہرے پر لکھی ضرورت پڑھی اور کاری وار کیا.
میں واپس مڑنے لگا تو میری بازو تھام لیا.
"ٹھر و تو باؤ جی، انکو تو، تسی وی بس......."
پھر وہ اندر گیا اور گن کر رقم لے آیا.
"پورے پچیس ہزار ہیں. ویسے کی کرنا ہے تسی؟" اسکے چہرے پر چمک اور لہنجے کی شگفتگی تھی، میں جواب دیے بغیر باہر
نکل آیا. حامد مستری کی دکان سے نکل کر، ایک لمحے کے لیے میں نے خود کو بے حد ادھورا محسوس کیا تھا. جیسے اچانک
کوئی بہت قیمتی شے انسان کی دسترس سے دور ہوجاتے. لیکن پھر معصومہ کے طاقتور خیال نے ہر خیال کو بس پشت دھکیل دیا.
میں ٹیکسی کر کے جیولر کی دکان پر گیا اور وہ کنگن خرید کرخوشی خوشی گھر چلا آیا.
پوری رات کنگن سامنے رکھ کر طرح طرح کے لفظ تراشتا رہا، اس کنگن سے بات کر کے معصومہ کا حصول آسان لگنے لگا.
دوسرے روز آفس سے ذرا پہلے اٹھ گیا. میرا خیال تھا کہ وہ لائبریری نہ پہنچی ہوگی لیکن وہ مجھے اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھی
نظر آئی. اس نے مجھ پر ایک نگاہ غلط ڈالی پھر واپس اپنی کتاب کی جانب متوجہ ہوگئی. میں اسکی ہی ٹیبل پر درماین میں دو کرسیوں
کا فاصلہ چھوڑ کر بیٹھ گیا. چند لمحوں تک میں نے اپنے دل کی دھڑکنوں کو ترتیب دیا، پھر اسے نظر بھر کر دیکھا اور اپنی کتاب کی
جانب متوجہ نظر آرہی تھی، لیکن یقننا میری موجودگی کو بھرپور طریقے سے محسوس کر رہی تھی.
میں نے ڈبیہ نکال کر میز پر رکھی اور کچھ سوچنے لگا. میں بھلا کس طرح اسے متوجہ کرتا؟ مجھے کیا کرنا چاہیے تھا، میں اسے
لائبریری سے باہر نکلنے کا کہنا چاہتا تھا، لیکن الفاظ کا چناؤ مجھے مشکل محسوس ہونے لگا.