رات آٹھ بجے جہاز نے جب پرواز کی ہرے بھرے اسلام آباد کے خوبصورت گھروندوں میں جگمگ جلتے دیے میرے پیروں تلے آگئے.
ہر انسان چاہتا ہے اسکے قدموں تلے دیپ روشن ہوں. اور خواھش جہاز میں بیٹھ کر پوری ہو جاتی ہے. میں نے ننھے سے شیشے سے سے
زمین پر پھیلی ہوئی روشنی کی بہار دیکھی. قطار دار قطار جگنوں چمک رہے تھے. اسلام آباد کی زمین پر آسمان کا گمان ہو رہا تھا.
نیچے دیکھ کر مجھے قرار سا آگیا. اس وقت میں نے سوچا اس کالی زمین کی طرح دل بھی ایک اندھیر نگری ہے جس سے زندگی میں ملنے والی
یادوں کے دیپ روشن ہوتے ہیں. دل کی اندھیری گلیوں میں سناٹا ہو جاتے. اگر جا بجا منڈیروں پر یادوں کے دیے چمکتے نظر نہ آئیں. دل ایک اندھا
کنواں ہوتا اگر اس میں یادوں کے پتھر اور کنکر نہ گرتے رهتے.
جہاز نے اڑان کے سارے ابتدائی مراحل پورے کیے. ٹیرھا میڑھا ہوکر سیدھی ہوگیا اور بلندی کی طرف جانے لگا. فضائی پروازوں نے دنیا کو مختصر
کر دیا ہے. دنیا سمت کر ایک دوسرے کے قریب اور لوگ ایک دوسرے سے دور ہوگئے ہیں.
میں نے جہاز کے زاویے سے ایک بار پھر اسلام آباد کی زمین کو دیکھا جو نظروں سے اوجھل ہونے والی تھی. دور سے اسلام آباد چم چم کرتا الف لیلیٰ
کا دیس لگ رہا تھا. اس ہی حسین اور جگمگاتے گھروں میں سے ایک میں میرے دل کا قرار تھا. ایک گھر نے میرا سکون گروی رکھ لیا تھا.
میں اس بلندی سے اس گھر کو دیکھ نہیں سکتا تھا مگر اس پل وہ گھر مجھے دنیا کا سب سے خوبصورت گھر لگ رہا تھا اور اسلام آباد خوابوں کا شہر
معلوم ہو رہا تھا جسکی روشنیاں دور ہوتی جا رہیں تھیں.
میں نے سر گھما کر دیکھا میری بیوی میری برابر کی سیٹ پر آنکھیں موندے بے دم سی لیٹی ہوئی تھی. آج کی دھواں دار بارش کی وجہ سے شام چار
بجے کی فلائٹ رات آٹھ بجے لاہور جا رہی تھی. ایک تو سارا دن سفارت خانوں کے چکروں میں گزرا تھا. اور دوسرا سری فلائٹس رک جانے کی وجہ
سے مسافر خانے میں رش بہت تھا. جن کے درمیان بیٹھے ہم دونوں میں بیوی آدھ مؤے ہو گئے. ایک تھاکہ دینے والے انتظار کے بعد خدا خدا کر
کے ہماری فلائٹ کا اعلان ہوا.
میں نے دور تک نظر گھما کر دیکھا. نور برساتا اسلام آباد دور رہ گیا. ان بہت سی روشنیوں میں ایک گھر کا تصور کیا میں نے، جس میں وہ سیاہ آنکھوں
والی عورت بے پرواہ بیٹھی نہ جانے کیا کر رہی ہوگی؟
........................................................