"بھی نیچے کے پورشن کے سارے کمرے بھرے ہیں، بندوں سے اور سامان سے بھی. دوسرے میں منجھلے کے بیوی بچوں کا سامان.
اب تم یوں کرو رہنا ہے تو تیسری منزل پر اپنا پورشن ڈال لو. ہم سب نے بھی اچھا خاصا پیسہ لگایا ہے ابّا میں کے اس گھر کو رہنے کے
قبل بنانے کے لیے". دونوں بھائیوں نے مختلف الفاظ میں ایک ہی مدعا کہ ڈالا. شاید وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ پندرہ بیس دنوں میں وہ پھر
نکلنے کی کریں گے مگر جانے کیا ہواتھا دل اب گھر سے کہیں جانے کو راضی نہیں تھا اور رہنے کی کوئی صورت نہیں تھی.
منیا کی انگوٹھی نہ ملی، تو نورین اپپا نے زیتون خالہ کے ڈر سے نئی انگوٹھی .بنوادی، مگر کچھ دنوں میں وہ بھی ڈھیلی ہوکر گر گئی گم ہو
گئی. سب سے خوب پھٹکار ہوئی. یوں بھی توقیر کے انے میں ابھی تین مہینے تھے، یوں بھی منیا خاندان میں سب سے پستہ قد سمجھی جاتی
تھی اور مزید دن با دن ڈبلی ہوتی جا رہی تھی کوئی سائز اسکو پورا نہیں آتا تھا.
"سیلانی بھائی! آپ میرے کمرے میں رہ لیں میں یہاں چوبارے پر رہ لوں گی یوں بھی تین ماہ ہی ہیں پھر تو میں نے چلے جانا ہے". منیا نے دروازے
میں اکر کہا.
"تم اکیلی اوپر کہاں رہو گو"؟ وہ فورا انکار نہ کر سکے.
"امید کی بیٹی میرے ساتھ ہی سوتی ہے تو اکیلی کیوں"؟ وہ فورا بولی تو ارسلان سے اب انکار نہ ہو سکا. منیا نے رضیہ اور اسکی بیٹی کو ساتھ لگا
کا اوپر نیچے کا سامان شفٹ کروایا اور یوں وہ منیا کے کمرے میں شفٹ ہو گئے. ابھی تو شکر ہے دونوں گھروں کے صحنوں میں ابھی دیوار نہیں
اٹھی تھی، کھلا صحن تھا. ارسلان کے تو اور مزے ہو گئے. دونوں بھابھیاں انکو کھانے پر بلانا بھول بھی جاتیں تو ظہیر بھیا کی بیوی بہت پیار
سے انکو کھانے پر بلاتی اور کوئی نہیں تو منیا تو تھی اب تین ماہ کے لئے.
گھر میں منیا کی شادی کی تیاریاں زور و شور سے چل رہیں تھیں.
"تم اب کے ٹک ہی گئے ہو تو شادی وادی کروا لو". بڑی بھابھی منیا کے جوڑے ٹانکتے ہوے کچھ جتا کر بولیں، اور پھر تو سب ہی ایک ہی زبان
بولنے لگے.
وہ گھبرا کر باہر نکل آتے.
"شادی کر لیں تو کیا بیوی کو منیا کے کمرے میں رکھیں، پھلے تو یہ مدثر چچا کا پورشن تھا".
"مگر میں شادی کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں". وہ ذھن کو جھٹک کر کسی دوست کی طرف چلے گئے.
...................................................