" میں تمہیں کیسا لگتا ہوں۔" حمدان نے انکھوں مین اشتیاق بھر کر سوال کیا تھا۔
"بکواس۔" پلوشہ نے فورا جواب دیا تو وہ احتجاجا رخ موڑ گیا۔
پلوشہ نے اسے دیکھا ۔ دراز قد ' وجیہہ ' ہینڈسم۔ ایک مرد کی مردانہ وجاہت کو بیان کرنے کے لیے جس قدر الفاظ ڈکشنری میں موجود ھیں وہ ان سب کے مطابق تھا۔
" کیا برائ ہے مجھ میں؟" اب وہ پلٹ کر پھر پوچھ رہا تھا۔
" کوئ ایک ہو تو بتاؤں۔" پلوشہ نے اپنے شہد رنگ بالوں کی ڈھیلی ہوتی پونی کو دوبارہ کس کر باندھا۔
حمدان نے ایک ماہر وکیل کی طرح خرابیوں کی تفصیل نہیں پوچھی اور اپنے حق میں بولنا شروع کر دیا۔
" جو بے شمار پلس پواؑنٹس ہیں ' تم ان پر غور کیوں کرتیں۔ نمبر ایک میں تمہارے چچا کا بیٹا ہوں یعنی ہمارا خاندان ایک ہے۔ زات برادری کا کوئ مسلہ نہیں۔ دوسرا میں اکلوتا ہوں یعنی فیملی چھوٹی ہے تیسرہ میں اسی گھر کے اوپر والے پورشن میں رہتا ہوں' تمہیں شادی کے بعد اپنے ماں باپ سے دور نہیں جانا پڑے گا ۔ چوتھا۔۔۔۔"
" بس بس۔۔۔ پلوشہ نے ھاتھ اٹھا کر اسے مزید بولنے سے روکا تھا۔
" یہی تمہارے نیگیٹو پواؑنٹس ہیں۔ نمبر ایک تم میرے چچا کے بیٹے ہو اور میں کزن میرجز کے خلاف ہوں ۔ خوامخواہ کی پرابلمز، نمبر دو ' تم اکلوتے ہو۔ میں بھی اکلوتی ہوں ۔ ساری زندگی اکیلی رہی ہوں۔ اب میں کسی بڑی فیملی میں شادی کرنا چاھتی ہوں۔ نمبر تین اگر شادی کے بعد بھی میری زندگی چینج نہیں ہوتی اور میں نے یہیں رہنا ہے تو کیا لینا ایسی شادی کا اور نمبر چار سب سے اہم بات میرا اور تمہارا مزاج نہیں ملتا۔ پسند نا پسند نہیں ملتی۔"
" اب اس میں میرا کیا قصور ہے کہ تم ہر جلتے توے پر بیٹھی انگارے چباتی رہتی ہو اور میں ایک خوش مزاج انسان ہوں' اصل چیز ہوتی ہے محبت اور وہ میں تم سے کرتا ہوں۔" حمدان نے کندھے اچکا کر اپنے ہی انداز میں اسے قاؑیل کرنے کی کوشش کی ۔
" میں سڑیل ہوں تو تم کس خوشی میں میرے پیچھے پڑے ہو۔ " پلوشہ کو حسب معمول غصہ آ گیا ۔ " نہیں کرتی میں تم سے شادی ' بھاڑ میں جاؤ تم۔" وہ پاؤں پٹختی وہاں سے واک آؤٹ کر گئ تھی۔
" دونوں مل کر جاؑلیں گے ہنی مون پر۔" حمدان نے پیچھے سے بلند اواز میں اسے چڑایا اور پھر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔