لہذا بیوہ بھاوج کو تین بیٹیوں کے ساتھ دوسرے شہر اکیلا چھوڑنے پر شوکت صاحب راضی نہ ہوئے اور انھیں اپنی بڑی ساری حویلی میں پچھلی طرف پر بنے دو چھوٹے کمروں کو تھوڑا بہت درست کر کے کچن باتھ روم وغیرہ بنا کر الگ پورشن کی شکل دے کر وہاں ہی ٹھہرنے پر مجبور کر دیا .
صائمہ بی نے بھی دنیا کے رنگ ڈھنگ دیکھ رکھے تھے . سو اسی کو غنیمت جان کر اپنی تینوں بیٹیوں کو لے کر اسی کونے میں دبک گئیں . تاکہ اپنی بچیوں کو دنیا کی گندی نظروں سے بچا سکیں . مگر یہاں انکی عزت نفس کو تار تار کرنے کو صغریٰ بیگم موجود تھیں . حالانکہ وہ الگ پورشن میں میں رہ رہی تھیں اور شوکت صاحب پر کوئی ایسا بوجھ بھی نہ تھا کہ ان کے اپنے مکان کا جو دوسرے شہر میں تھا کرایا بھی آتا تھا . کچھ وہ اپنی بیٹیوں کو ساتھ لگا کر سلائی ' کڑھائی کا کام بھی کر لیتی تھیں .
اب ان کی بڑی بیٹی کی شادی کا مسلہ درپیش تھا . رشتہ بھی شوکت صاحب نے خود دیکھ بھال کر کروایا تھا اور اسے اپنی بیٹیوں کی طرح ہی رخصت کرنا چاہ رہے تھے اور صغریٰ بیگم کو یہ بات بڑی چبھ رہی تھی .
" امی ! باہر ارشاد آئی ہے . بیمار ہے . کہہ رہی ہے کہ کچھ پیسوں کی ضرورت ہے ." چندا نے اماں کو بتایا .
" بٹھایا کدھر ہے اسے ؟" صغریٰ بیگم نے رعونت سے پوچھا.
" باہر لاونج میں بیٹھی ہے ."
" اے سی کی کولنگ تو بڑھا دے ." صغریٰ بیگم نے چندا سے کہتے ہوئے کروٹ بدل لی .
" امی ! پہلے اسے تو فارغ کر دیں . آپ تو دوبارہ سے سونے کی تیاری کر رہی ہیں ." چندا نے اماں کو یاد دہانی کروائی .
" اچھا کر دیتی ہوں فارغ .تو زیادہ پر دھیان نہ بن . ابھی تھوڑی دیر تک باہر نکلوں گی تو سن لوں گی اس کی فریاد ." صغریٰ بیگم نے لا پروائی سے کہا .
تقریبا گھنٹے بعد ہلکا سا دروازہ بجا کر اجازت ملنے پر سندر اندر داخل ہوئی .
"