دھول اگر مٹی کی ور رہی ہو تو تو کچھ پل کے لئے منظر دھندلا سا جاتا ہے ! آنکھیں کچھ لمحوں کے لئے منظر سے مانوس نہیں ہوتیں ، پھر آہستہ آہستہ دھول بیٹھ جاتی ہے اور منظر پہلے جیسا صاف ستھرا نظر آنے لگتا ہے ' لیکن اگر دھول عزت کی ور جاۓ تو ؟
پھر کچھ پل تو کیا کچھ سال بھی بیت جائیں تو منظر شفاف نہیں ہوتا . نفرت زد ہ نظریں کئی سال جھیلنی پڑتی ہیں . ملنے ملانے والوں کی زبانیں کبھی ہمدردی اور کبھی ترس بھری گفتگو میں ڈھل جاتی ہیں . اور نا کردہ گناہوں کی سزا نسل در نسل چلتی رہتی ہے . وہ عزت جسے سالوں لگ جاتے ہیں بنانے میں ' معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے میں ' لیکن اک لمحہ لگتا ہے عزت کی دھول اڑنے میں . بالکل یوں جیسے کوئی چاول بھرے تھال میں سے باریک باریک کنکر چن رہا ہو اور جب چن لے تو کوئی شرارتی بچہ تھال میں ہاتھ مار کر تھال گرا دے .
" الله خیر کرے ماسی نذیراں آج صبح صبح ادھر آ رہی ہے ." دونوں عورتوں نے ایک ساتھ ادھر دیکھا .اتنے میں ماسی نذیراں پھولے ہوئے سانس کے ساتھ ان کے قریب آ کر رکی .
" کیا ہوا ماسی ' اتنی صبح کہاں سے آ رہی ہو ؟"
" ارے نہ پوچھو کیا ہوا ہے ' سمجھو قیامت آ گئی ہے ." ماسی نذیراں گھبرائی ہی تھی .
" کیسی قیامت ماسی ؟"
" رانا آفاق کی بڑی بیٹی گھر سے بھاگ گئی ہے ."
" کیا ؟" دونوں عورتوں کے حلق سے چیخ نما آواز نکلی .
" ماسی ! الله کا نام لے ! ' اتنی صبح اتنا بڑا الزام . تجھے پتا ہے رب سوہنا کتنا ناراض ہوتا ہے کسی پر بہتان لگانے پر ." پہلی عورت نے ذرا سنبھل کر کہا .
" لو بھلا مجھے کیا ضرورت پڑی ہے جھوٹ بولنے کی . میں خود دیکھ کر آئی ہوں ."
" ماسی بس کر ' بھائی آفاق کی بچیاں کتنی نیک اور با حیا ہیں ' پورا محلہ جانتا ہے . نماز روزے کی پابند ہیں . اپنے ہاتھوں میں تو پلی ہیں . اسکول کالج عبایا میں گئیںاور نظر جھکا کر گئیں اور تو کیا بکواس کر رہی ہے صبح صبح." دوں عورتوں کو شدید برا لگا تھا .
" تم لوگوں کو یقین نہیں آئے گا . خود جا کر دیکھ لو ' صف ماتم بچھی ہوئی ہے رانا آفاق کے گھر میں ."